پاکستان کی ایک مذہبی و سیاسی جماعت 'جماعت اسلامی' کے سینیئر راہنما نے کہا ہے کہ وہ ان لوگوں کی "آنکھیں نکال اور زبان کاٹ دیں" گے جو توہین مذہب کے قانون میں ترمیم کرنا چاہتے ہیں۔
شائع شدہ اطلاعات کے مطابق یہ تنبیہ جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مشتاق احمد خان نے چارسدہ میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران توہین مذہب کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں طالب علم مشال خان کی ہلاکت کے تناظر میں کہی۔
گزشتہ ماہ مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے اس طالب علم کو اسی جامعہ کے مشتعل طلبا نے بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے میں ملک بھر میں مذمت کے ساتھ ان مطالبات میں بھی اضافہ ہوا تھا کہ توہین مذہب کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اس قانون میں ترمیم کی جائے۔
مشتاق احمد خان کا مزید کہنا تھا کہ جب تک معاملے کی تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتیں مشال خان کو نہ تو شہید اور نہ ہی گستاخ کہہ کر پکارا جائے۔
انھوں نے ہجوم کی طرف سے قانون ہاتھ میں لینے کے اقدام کی مذمت بھی کی۔
مشال خان کی ہلاکت کے واقعے کا پاکستان کی عدالت عظمیٰ بھی نوٹس بھی لے چکی ہے اور پولیس حکام کی طرف سے عدالت کو بتایا جا چکا ہے کہ اب تک کی تحقیقات میں ایسے شواہد نہیں ملے جس سے ثابت ہو سکے کہ مشال خان توہین مذہب کا مرتکب ہوا تھا۔
پولیس حکام کے مطابق اس واقعے میں ملوث ہونے کے الزام میں 49 افراد کی نشاندہی ہوئی تھی جن میں سے 47 کو گرفتار کیا جا چکا ہے جب کہ دو تاحال مفرور ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہی مردان میں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مقامی قائدین نے ایک ریلی نکالی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ مشال خان کے قتل کے معاملے میں پولیس ان کے بقول بے گناہ لوگوں کو بھی ہراساں کر رہی ہے۔
تاہم پولیس حکام اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔