'وزیراعظم شہباز شریف نے عافیہ صدیقی کی سزا معافی کے لیے امریکی صدر کو خط لکھ دیا'
سرکاری وکیل نے جمعے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران عدالت کو بتایا ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے امریکی جیل میں قید پاکستانی خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی سزا معافی کے لیے امریکی صدر کو خط لکھ دیا ہے۔
ہائی کورٹ کے جج جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے جمعے کو عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی کی درخواست پر سماعت کی تو اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے مذکورہ پیش رفت سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا۔
شہباز شریف کی جانب سے لکھے گئے خط میں درخواست کی گئی ہے کہ انسانی بنیادوں پر عافیہ صدیقی کی رحم کی اپیل منظور کی جائے اور ان کی رہائی کا حکم جاری کیا جائے۔
عافیہ صدیقی اس وقت امریکہ کی ریاست ٹیکساس کی ایک وفاقی جیل میں 86 سال قید کی سزا کاٹ رہی ہیں۔ انہیں 2010 میں نیویارک کی وفاقی عدالت نے امریکی شہریوں کو قتل کرنے کی کوشش سمیت سات الزامات میں سزا سنائی تھی۔
عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کے لیے ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔ ان کی جانب سے عمران شفیق ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
طالبہ سے مبینہ زیادتی کا معاملہ: جے آئی ٹی کا پہلا اجلاس آج ہی طلب
- By ضیاء الرحمن
سوشل میڈیا پر نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کے معاملے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی)کا پہلا اجلاس آج ہی طلب کر لیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے ضیاء الرحمٰن کے مطابق جے آئی ٹی کی سربراہی ایس ایس پی انویسٹی گیشن محمد نوید کر رہے ہیں۔ چھ رکنی جے آئی ٹی میں تین پولیس افسر اور تین حساس اداروں کے نمائندے شامل ہیں۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تھانہ ڈیفنس اے میں درج مقدمے کی تفتیش کرے گی۔ تحقیقات میں سوشل میڈیا پر ریاست مخالف اکسانے کی ترغیب دینے والوں کی نشاندہی کی جائےگی اور سوشل میڈیا پر لڑکی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والوں کا بھی سراغ لگایا جائے گا۔
فیک نیوز پھیلانے اور طالبہ مبینہ زیادتی کیس کی سماعت کے لیے لاہور ہائی کورٹ کا فل بینچ تشکیل
- By ضیاء الرحمن
لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم نے تعلیمی اداروں میں ہراسگی کے حالیہ واقعات اور سوشل میڈیا پر فیک نیوز پھیلانے کے حوالے سے سماعت کے لیے پانچ رکنی فل بینچ تشکیل دے دیا ہے اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو معاملے کی انکوائری کی ہدایت کر دی ہے۔
فُل بینچ منگل کے روز کیس کی سماعت کرےگا۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے طالبہ مبینہ زیادتی کیس اور لاہور کے تعلیمی اداروں میں حالیہ واقعات سے متعلق اعلی سطح تحقیقات کے لیے دائر درخواست پر جمعے کو سماعت کی۔
کیس کی سماعت کے دوران آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے عدالت کو بتایا کہ ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ ہونے سے رروکنے اور وائرل ہونے سے روکنے کے لیے اُن کے پاس کوئی اختیارات نہیں ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے کسی اتھارٹی سے رابطہ کیا تھا؟
آئی جی پنجاب نے کہا کہ وہ پی ٹی اے کے پاس گئے تھے۔ یہ ویڈیوز 13, 14 اکتوبر کو وائرل ہونا شروع ہوئیں۔ اِس حوالے سے سی ٹی ڈی نے 114 اکاؤنٹس کی شناخت کی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو فوراً ایف آئی اے سے رابطہ کرنا تھا۔
چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ حکومت پنجاب نے اس حوالے سے کچھ کیا؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ انسٹاگرام پر ایک پوسٹ اپلوڈ ہوئی کہ نجی کالج میں ایک طالبہ سے مبینہ زیادتی کا واقعہ ہوا ہے۔ علاقے کے اے ایس پی کالج پرنسپل سے ملے، سی سی ٹی وی چیک کی۔ ہر بچہ کہہ رہا تھا کہ زیادتی ہوئی ہے مگر کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ دوسرے کیمپس کے بچے بھی اس کیمپس پہنچ گئے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے مطابق ایک منتظم طریقے سے یہ سب کچھ ہوا اور جب توڑ پھوڑ ہوئی تو وزیر اعلی نے ایک سپیشل کمیٹی تشکیل دی۔ پیر کے دن تک کوئی زیادتی کا شکار سامنے نہیں آیا جب کہ افواہ یہ ہے کہ مبینہ زیادتی 9 یا 10 اکتوبر کو ہوئی۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ 2 اکتوبر کو ایک بچی کا لاہور جنرل اسپتال میں علاج ہوا۔چار اکتوبر کو یہ بچی ایک نجی ہسپتال میں جاتی ہے، بچی پانچ دن آئی سی یو میں رہی۔ صرف یہ ایک بچی اسپتال نہیں آرہی تھی تو کسی نے کہا کہ ہمیں زیادتی کا شکار بچی مل گئی ہے۔
اِس موقع پر آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے 700 سے زائد اکاؤنٹس کی شناخت کی جب کہ کچھ ویڈیو انگلینڈ میں بھی اپلوڈ ہوئی ہیں۔ اِس سلسلے میں اُنہوں نے وزارتِ داخلہ سے بات کی اور انہیں مراسلے لکھے۔ جن اکاؤنٹس پر یہ ویڈیوز چل رہی تھیں انہیں بند کرنے کا اختیار پی ٹی اے کے پاس ہے۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ وہ یہ نہیں کہتے کہ یہ ایک منظم طریقے سے ہوا، مگر جب یہ ہوا موقع پرستوں نے اس سے فائدہ اٹھایا۔
تعلیمی اداروں میں حالیہ واقعات سے متعلق اعلی سطح تحقیقات کے لیے دائر درخواست پر دلائل سننے کے بعد سماعت ملتوی کر دی گئی۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں کا وقت تبدیل، آئینی ترمیم ایجنڈے میں شامل نہیں ہے
- By ایم بی سومرو
قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں کا وقت تبدیل کر دیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے مطابق اجلاس شام چھ بجے ہو گا۔ دوسری جانب سینیٹ کا اجلاس بھی دو بجے کے بجائے شام چھ بجے ہو گا۔
اجلاس کے وقت کی تبدیلی کے بعد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے 15 نکاتی ایجنڈ جاری کردیا ہے تاہم ایجنڈے میں 26 ویں آئینی ترمیم پیش کرنے کا عمل شامل نہیں ہے۔
سینیٹ کے آج ہونے والے اجلاس کے لیے سات نکاتی ایجنڈا جاری کردیا گیا ہے جس میں بھی 26 ویں آئینی ترمیمی بل پیش کرنے کا معاملہ شامل نہیں ہے۔
قومی اسمبلی و سینیٹ سیکریٹریٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایجنڈے میں شامل نہ ہونے کے باوجود حکومت چاہے تو رولز معطل کروا کر آئینی ترمیم کا بل دونوں ایوانوں میں سے کسی ایک ایوان میں پیش کر سکتی ہے۔