لبنان پر اسرائیلی حملے میں 23 افراد ہلاک
اسرائیل کی فوج نے لبنان کے دارالحکومت بیروت کے شمال میں ایک گاؤں پر فضائی حملہ کیا ہے جس میں 23 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
اتوار کو المت گاؤں کو اتوار کے دن اسرائیلی فورسز نے نشانہ بنایا۔ اس حملے میں سات بچے بھی مارے گئے ہیں۔
لبنان کی وزارتِ صحت نے اموات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حملے میں چھ افراد زخمی ہوئے ہیں۔
وزارت کے مطابق جس علاقے کو نشانہ بنایا گیا ہے یہ حزب اللہ کے زیرِ اثر مشرقی اور جنوبی علاقوں سے کافی دور ہے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم کا ایک ہفتے میں تین بار ٹرمپ سے رابطہ
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ گزشتہ ہفتے امریکہ میں ہونے والے انتخابات کے بعد ان کی نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے تین بار رابطہ ہوا ہے۔
ان کے بقول دونوں ممالک ایران سے خطرے کے پہلو کو ایک آنکھ سے دیکھتے ہیں۔
قبل ازیں اسرائیلی میڈیا میں یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو سے کہا ہے کہ نو منتخب امریکی صدر چاہتے ہیں کہ ان کی 20 جنوری کو صدارت سنبھالنے سے قبل اسرائیل ایران کے حامی غزہ کے عسکری گروہ حماس اور لبنانی عسکری گروپ حزب اللہ سے جنگوں کا تصفیہ کر لے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم نے حزب اللہ پر پیجر حملوں کی منظوری دینے کا اقدام تسلیم کر لیا
اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے پہلی بار عوامی سطح پر اعتراف کیا ہے کہ لبنان میں حزب اللہ کے خلاف پیجر حملے اسرائیل نے کیے تھے۔
اتوار کو بن یامین نیتن یاہو کا یہ بیان اسرائیلی کابینہ کے ہفتہ وار اجلاس کے موقع پر سامنے آیا ہے۔
لبنان میں 16 اور 17 ستمبر کو سینکڑوں بیجرز اور واکی ٹاکیز میں دھماکے ہوئے تھے۔
شام میں بھی اسی طرح کے دھماکوں کی رپورٹ سامنے آئی تھیں۔
ان دھماکوں میں لگ بھگ 40 افراد مارے گئے تھے جن میں بچے بھی شامل تھے جب کہ تین ہزار سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے تھے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے حالیہ دنوں میں برطرف کیے گئے وزیرِ دفاع یووگلینٹ کو بھی اجلاس میں تنقید کا نشانہ بنایا ۔
ان کا کہنا تھا کہ پیجر آپریشن اور حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کو نشانہ بنانے کی کارروائی وزارتِ دفاع میں اعلیٰ عہدوں پر موجود افراد کی مخالفت کے باوجود کیے گئے۔
ان کے بقول یہ اقدامات سیاسی طور پر عہدوں پر موجود افراد کی یہ ذمہ داری تھی۔
اسرائیل کا کئی ماہ سے جاری محاصرہ، شمالی غزہ قحط کے دہانے پر
شمالی غزہ میں گزشتہ ایک ماہ سے کسی بھی قسم کی کھانے کی اشیا نہ پہنچنے کے سبب ہزاروں فلسطینیوں کو دستیاب خوراک کا ذخیرہ ختم ہونے والا ہے۔
فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ ارد گرد کے علاقوں میں جب بمباری ہو رہی ہوتی ہے تو وہ تباہ شدہ گھروں کے ملبے سے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر کھانے کے ڈبے تلاش کرتے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق خوراک سے محروم ہزاروں فلسطینی غزہ سٹی پہنچے ہیں جہاں انہیں حالات قدرے بہتر دکھائی دیتے ہیں۔
شمالی غزہ کے رہائشی محمد ارقوق آٹھ افراد پر مشتمل اپنے کنبے کے ساتھ شمالی غزہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انہیں اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کرنے کے لیے بھوکا مارا جا رہا ہے۔ ان کے بقول وہ اپنے گھر میں مرنے کو ترجیح دیں گے۔
طبی عملے نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے گزشتہ ایک ماہ سے جاری شمالی غزہ کے محاصرے کی وجہ سے شدید غذائی قلت پیدا ہوگئی ہے۔
اسرائیلی فوج اکتوبر کے آغاز سے یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ ان کارروائیوں میں عسکریت پسندوں کو جڑ سے اکھاڑ رہی ہے۔