ایران کے خلاف اسرائیل کی کامیابی معلومات کے افشا کے بغیر ناممکن تھی: مبصرین
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایران اور اس کے اتحادیوں کے خلاف اسرائیل کے خفیہ اداروں کی کامیابی کے حالیہ سلسلے نے ایران کی اسٹیبلشمنٹ میں اسرائیلی دراندازی کی حد کو اجاگر کر دیا ہے جو ایرانی قیادت کے لیے بڑی پریشانی کا باعث بن رہی ہے۔
اب تک یہ انتہائی خفیہ راز رہا ہے کہ اسرائیل نے ایران کی انتظامیہ اور سیکیورٹی کے آلات تک کیسے اور کتنی گہرائی تک دراندازی کی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ایران میں ہلاکتوں، ٹارگٹڈ حملوں اور خفیہ آپریشنز سمیت جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ اعلیٰ سطح پر معلومات کے افشا کیے بغیر ناممکن ہوتیں۔
ایران کے اندر اسرائیل کی رسائی کی حد کا مسئلہ خاص طور پر اس لیے بھی سنگین ہے کہ دونوں حریف ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ دونوں فریق پہلی بار ایک دوسرے کی سر زمین پر کھلے عام حملے کر رہے ہیں۔
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ایک معاون نے ایران کے لیے معاملے کی سنگینی کا غیر معمولی طور پر عوامی سطح پر اعتراف کرتے ہوئےگزشتہ ہفتے کہا تھا کہ حالیہ برسوں میں دراندازی کا مسئلہ بہت سنگین ہو گیا ہے۔
قطر کا اسرائیل اور حماس میں ثالثی کردار معطل کرنے کا فیصلہ
خلیجی ملک قطر کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ اور یرغمالوں کی رہائی کے لیے مذاکرات میں اپنے ثالثی کے کردار کو اس وقت تک معطل کر رہا ہے جب تک کہ فریقین ’آمادگی اور سنجیدگی‘ کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کو روکنے کے لیے کیے جانے والے مذاکرات بے نتیجہ رہے ہیں جس کی وجہ سے قطر نے ثالثی کے کردار کو معطل کیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق قطر کے اس فیصلے کے بعد یرغمالوں کی بازیابی کے احتجاج کرنے والے اسرائیلی مظاہرین نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب میں ہفتے کو ہونے والے احتجاج میں ہزاروں مظاہرین شریک ہوئے جو پچھلے سال سات اکتوبر کو حماس کے جنوبی اسرائیل پر کیے جانے والے حملے کے 400 دن گزرنے سے متعلق پوسٹرز تھامے احتجاج کر رہے تھے۔
احتجاج میں شریک مظاہرین نے ’یرغمالوں سے متعلق فوری معاہدہ‘ اور ’اپنے ہتھیار چھوڑو اور جنگ بند کرو‘ کے پوسٹرز اٹھا رکھے تھے۔
اسرائیل کا کئی ماہ سے جاری محاصرہ، شمالی غزہ قحط کے دہانے پر
شمالی غزہ میں گزشتہ ایک ماہ سے کسی بھی قسم کی کھانے کی اشیا نہ پہنچنے کے سبب ہزاروں فلسطینیوں کو دستیاب خوراک کا ذخیرہ ختم ہونے والا ہے۔
فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ ارد گرد کے علاقوں میں جب بمباری ہو رہی ہوتی ہے تو وہ تباہ شدہ گھروں کے ملبے سے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر کھانے کے ڈبے تلاش کرتے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق خوراک سے محروم ہزاروں فلسطینی غزہ سٹی پہنچے ہیں جہاں انہیں حالات قدرے بہتر دکھائی دیتے ہیں۔
شمالی غزہ کے رہائشی محمد ارقوق آٹھ افراد پر مشتمل اپنے کنبے کے ساتھ شمالی غزہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انہیں اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کرنے کے لیے بھوکا مارا جا رہا ہے۔ ان کے بقول وہ اپنے گھر میں مرنے کو ترجیح دیں گے۔
طبی عملے نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے گزشتہ ایک ماہ سے جاری شمالی غزہ کے محاصرے کی وجہ سے شدید غذائی قلت پیدا ہوگئی ہے۔
اسرائیلی فوج اکتوبر کے آغاز سے یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ ان کارروائیوں میں عسکریت پسندوں کو جڑ سے اکھاڑ رہی ہے۔