لبنان کی پارلیمنٹ کے قریب اسرائیل کا فضائی حملہ، چھ افراد ہلاک
اسرائیل نے جمعرات کی علی الصباح لبنان کے دارالحکومت بیروت میں فضائی حملہ کیا ہے جس کے نتیجے میں چھ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے بیروت میں ایک محدود کارروائی کی ہے جب کہ عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ بیروت کی پارلیمنٹ کے قریب عمارت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
لبنان کی وزارتِ صحت کے حکام کے مطابق حملے میں چھ افراد ہلاک اور سات زخمی ہوئے ہیں۔
اسرائیلی فضائی حملے سے متاثرہ عمارت کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہیں جن میں عمارت کی پہلی منزل پر آگ جلتی ہوئی دیکھی جا سکتی ہے۔ رائٹرز کا کہنا ہے کہ وائرل تصاویر اور ویڈیوز کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں کی جا سکتی۔
لبنان کے سیکیورٹی ذرائع نے بتایا ہے کہ ملک کے جنوبی علاقے دیہیہ میں تین دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں گزشتہ ہفتے عسکری تنظیم حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ اسرائیلی کارروائی میں مارے گئے تھے۔
اسرائیل کے لبنان میں حملے؛ حزب اللہ کتنی کمزور ہوئی ہے؟
لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ کو گزشتہ دو ہفتوں میں اپنی تاریخ کے سب سے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس عرصے میں تنظیم کے قائد حسن نصر اللہ سمیت کئی اہم کمانڈرز کی ہلاکت اور اب اسے اسرائیلی فورسز سے زمینی لڑائی کا سامنا بھی ہے۔
دو ہفتے قبل حزب اللہ کے کارکنوں کے زیرِ استعمال ہزاروں کمیونی کیشن ڈیوائسز اچانک پھٹنے کے واقعات میں کم از کم 39 افراد ہلاک اور 3000 زخمی ہوگئے تھے۔ حزب اللہ نے ان دھماکوں کے لیے اسرائیل کو ذمے دار قرار دیا تھا۔
گزشتہ برس اکتوبر میں حزب اللہ کی اتحادی حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد لبنانی عسکری تنظیم نے بھی اسرائیل کی شمالی سرحد پر جھڑپیں شروع کر دی تھیں۔ اس کشیدگی میں اب تک حزب اللہ کے لگ بھگ 500 جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں۔
گزشتہ ہفتے سے جاری اسرائیل کی لبنان پر بمباری میں حزب اللہ کے 100 سے زائد جنگجو مارے گئے ہیں جن میں حزب اللہ کے اعلیٰ عہدے دار اور کمانڈرز بھی شامل ہیں۔
حزب اللہ وقفے وقفے سے وسطی اسرائیل پر راکٹ فائر کر رہی ہے۔ تنظیم کے ترجمان محمد عفیف نے منگل کو خبردار کیا تھا کہ اسرائیل پر راکٹ حملے صرف آغاز ہیں اور وہ لبنان میں داخل ہونے پر اسرائیلی فوج سے مقابلے کے لیے تیار ہیں۔
ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کی حمایت نہیں کروں گا: جو بائیڈن
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے بدھ کو صحافیوں کے اس سوال پر کہ آیا ایران کے اسرائیل پر میزائل حملے کے جواب کی صورت میں وہ ایرانی تنصیبات پر کسی حملے کی حمایت کرتے ہیں، کہا ہے کہ ان کا جواب نفی میں ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق بائیڈن کی جانب سے یہ تبصرہ ایسے موقع پر آیا جب جی سیون ممالک کے سربراہان نے بدھ کے روز ایک فون کال کے دوران ایران پر مزید پابندیوں کے بارے میں غور کیا۔
انہوں نے اپنے بیان میں اسرائیل اور اس کے عوام کے ساتھ امریکہ کی حمایت اور یک جہتی کو دہرایا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق سربراہان نے اپنے بیان میں کہا کہ، ’’ہم اسرائیلیوں کے ساتھ اس بات پر غور کریں گے کہ وہ کیسے ردعمل دیں، لیکن ہم ساتوں (جی سیون) اس پر متفق ہیں کہ ان کے پاس جواب دینے کا حق ہے اور انہیں برابری کا ردعمل دینا چاہئے۔‘‘
ایرانی میزائل حملہ اسٹرٹیجک نہیں، ٹیکٹیکل اقدام دکھائی دیتا ہے: تجزیہ کار
- By علی عمران
ایران کے اسرائیل پر دو سو کے قریب میزائل حملوں اور تل ابیب کی جانب سے تہران کو سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیوں کے بعد مبصرین کا کہنا ہے کہ اطراف سے جاری عسکری اقدامات نے مشرق وسطی میں جنگ کے خطرات کو اچانک کئی درجے بڑھا دیا ہے۔
مبصرین کے مطابق صورتِ حال نے امریکی کردار کو بھی کئی حوالوں سے نمایاں کر دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ کشیدگی کے وسیع تر جنگ میں تبدیل ہونے پر دو بڑے عوامل اثر انداز ہوں گے۔ ایک یہ کہ ایران اپنی حمایت یافتہ عسکریت پسند تنظیموں کو پہنچنے والے نقصان کے وقت کیا آپشنز استعمال کرتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کہاں تک اس جنگ کو پھیلانے کے لیے تیار ہیں؟
واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ماہر اور بین الاقوامی تعلقات کے نائب صدر پال سیلم کہتے ہیں کہ حسن نصراللہ کی ہلاکت نے خطے میں زلزلے کا کام کیا ہے۔ اس واقعہ کے بعد تہران اپنے آپ کو بہت غیر محفوظ سمجھ رہا ہے۔
ان پر خطر حالات میں ایران کے آپشنز پر سیلم کہتے ہیں کہ ایران کی ایک راہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ کشیدگی میں کمی لانے، اسرائیل کے حملے کی شدت میں کمی کرنے، اسے سست کرنے یا روکنے کے لیے راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرے۔