رسائی کے لنکس

پاکستانی فوج کے افسر کو 'حبسِ بیجا' میں رکھنے کا الزام، اہلیہ کی درخواست مسترد


ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) میں تعینات پاکستانی فوج کے حاضر سروس بریگیڈیئر گرفتاری کیس میں ہائی کورٹ نے بریگیڈیئر اختر سبحان کی اہلیہ کی طرف سے دائر کردہ حبسِ بیجا کی پٹیشن کو خارج کر دیا ہے۔

عدالت کا کہنا ہے کہ پاکستان آرمی کا افسر وفاقی حکومت کی وزارتِ دفاع کے کنٹرول میں اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے اور آرمی ایکٹ کے تابع ہے۔

اس سے قبل عدالت نے حاضر سروس بریگیڈیئر اختر سبحان کو عدالتی حکم کے باوجود پیش نہ کرنے اور ان کی فوج کی تحویل سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کے جج جسٹس جواد حسن نے گزشتہ سماعت پر وزارتِ دفاع کو حکم دیا تھا کہ وہ 26 ستمبر کو بریگیڈیئر اختر سبحان کو عدالت میں پیش کریں۔

منگل کو عدالت میں سماعت کے موقع پر وزارتِ دفاع کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ حاضر سروس بریگیڈیئر سنجیدہ نوعیت کے جرائم میں ملوث تھے جس کا کمانڈنگ افسر نے نوٹس لیا اور انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

جواب میں کہا گیا ہے کہ ملزم کی گرفتاری آرمی ایکٹ کے سیکشن 73کے تحت ہوئی اور تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے۔ اس لیے بریگیڈیئر سبحان احتر کو حبسِ بیجا میں رکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

عدالت نے اس بارے میں محفوط فیصلہ سناتے ہوئے بریگیڈیئر سبحان کی اہلیہ عمیرہ سلیم کی حبس بیجا کی درخواست کو مسترد کر دیا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 199(3) سے متعلق معاملات میں آئینی دائرہ اختیار بہت محدود ہےاور اس آرٹیکل کے تحت فوج کی حراست میں موجود شخص کے حوالے سے عدالت کوئی حکم جاری نہیں کر سکتی۔

بریگیڈیئر اختر سبحان گرفتار کیوں ہوئے؟

پاکستانی فوج کے حاضر سروس بریگیڈیئر اختر سبحان کی اہلیہ نے جو درخواست عدالت میں جمع کروائی ہے اس کے مطابق ان کے شوہر ڈی ایچ اے کوئٹہ میں بطور ڈائریکٹر کام کررہے تھے۔

رواں سال 22 جون کو انہیں اسپیشل انویسٹی گیشن برانچ نے ان کے دفتر سے گرفتار کیا جس کے بعد بریگیڈیئر اختر سبحان کو راولپنڈی منتقل کردیا گیا۔

بریگیڈیئر کی اہلیہ کے مطابق 24 ستمبر کو ان کی ملاقات ان کے شوہر سے کروائی گئی جو اچھی صحت میں نہیں تھے۔

اُن کے بقول بریگیڈیئر اختر سبحان کا وزن 11 کلو کم ہو چکا ہے۔ پٹیشنر کے مطابق ان کے شوہر کو غیر قانونی حراست میں رکھا گیا ہے۔

اس سے قبل ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک صدیق اعوان نے عدالت میں کہا تھا کہ بریگیڈیئر اختر سبحان کو ریاست مخالف سرگرمیوں پر گرفتار کیا گیا ہے۔

پٹیشنر کا کہنا تھا کہ ان کے محب وطن شوہر پر ریاست مخالف سرگرمیوں کا الزام ایک بہت بڑا جھوٹ ہے اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا بیان عدالت کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔

ان کے بقول ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا بیان توہین عدالت بھی ہے جہاں انہوں نے عدالت کی طرف سے بریگیڈیئر اختر سبحان کو عدالت میں پیش کرنے کے بجائے مختلف الزامات عائد کیے ہیں۔

پٹیشنر عمیرہ سلیم کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر کو غیر قانونی طور پرکسی چارچ شیٹ کے بغیر گرفتار کر کے پاکستان آرمی ایکٹ کے سیکشن 74 اور 75 کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بریگیڈیئر اختر سبحان کو کرپشن کے الزامات پر گرفتار کیا گیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ان پر چار ارب روپے سے زائد کی کرپشن کے الزامات ہیں جو ڈی ایچ اے کوئٹہ میں زمینوں کی خرید و فروخت سے متعلق ہیں۔ تاہم عدالت میں اب تک اس حوالے سے کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔

فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان

منگل کے روز اس درخواست کی سماعت ہوئی تو وزارت دفاع کی جانب سے کچھ دستاویزات عدالت میں جمع کروائی گئیں۔

دستاویزات میں کہا گیا کہ درخواست گزار کی جانب سے اس درخواست میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ جواب میں کہا گیا کہ درخواست گزار کا مقصد فوج کو بدنام کرنا ہے اور درخواست میں غیر ضروری الزامات لگائے گئے ہیں۔

اس بارے میں پٹیشنر عمیرہ سلیم کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں دیے جانے والے فیصلے کو ہم سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ فیصلے میں جن عدالتی کیسز کا حوالہ دیا گیا ہے وہ سب مارشل لا کے دور کے ہیں جب کہ اس حوالے سے ان کی گرفتاری کے بعد حسنین انعام کیس میں جو فیصلہ دیا گیا تھا اس کے مطابق آرٹیکل 10 اے کے تحت فیئ رٹرائل کا حق نہیں چھینا جا سکتا۔

فورم

XS
SM
MD
LG