رسائی کے لنکس

آرمی ایکٹ میں ترامیم: 'سابق فوجی افسران کو ڈسپلن کا پابند کیا گیا ہے'


پاکستان کی سینیٹ نے آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2023 منظور کر لیا ہے جس کے تحت فوج کو بدنام کرنے پر دو برس کی سزا ہو سکتی ہے۔

جمعرات کو سینیٹ کےاجلاس کے دوران وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2023 کا بل ایوان میں پیش کیا۔ یہ بل 1952 کے پاکستان آرمی ایکٹ میں مزید ترامیم کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

بل میں تجویز کردہ ترامیم کے مطابق ملک کی سلامتی اور مفاد میں ملنے والی سرکاری معلومات کے غیر مجاز انکشاف پر پانچ برس تک سخت قید کی سزا دی جائے گی۔

تاہم بل میں واضح کیا گیا ہے کہ آرمی چیف یا کسی بھی با اختیار عہدہ دارکی اجازت سے معلومات سامنے لانے والے کو سزا نہیں ہوگی۔

جنرل باجوہ کے اثاثوں کی خبر دینے والے احمد نورانی اشتہاری قرار
please wait

No media source currently available

0:00 0:15:13 0:00

پاکستان اور افواج پاکستان کے مفاد کے خلاف کسی بھی قسم کی معلومات سامنے لانے والے شخص کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی ہو گی۔

بل کے مطابق پاکستان آرمی ایکٹ جن ٖفوجی اہل کاروں پر لاگو ہوتا ہے انہیں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہو گی۔

آرمی ترمیمی ایکٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ فوجی افسران کو ریٹائرمنٹ، مستعفی ہونے یا برطرفی کی صورت میں کم از کم دو برس تک کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہو گی۔

بل میں تجویز کردہ ترامیم کے مطابق حساس منصب پر تعینات رہنے والے فوجی افسران کو پانچ برس تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی ہوگی۔ اس پابندی کی خلاف ورزی پر دو برس تک سخت سزا ہوگی۔

آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2023 کے تحت اس قانون کے دائرے میں آنے والے افراد اگر الیکٹرانک کرائمز میں ملوث ہوئے جس میں فوج کو بدنام کرنا بھی شامل ہے، تو ایسے افراد کے خلاف الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی ہوگی۔

بل کے مطابق فوج کو بدنام کرنے یا اس کے خلاف نفرت انگیزی کے مرتکب شخص کو دو برس تک قید اور جرمانے کی سزا دی جا سکے گی۔

بل کی مخالفت

بل کے ایوان سے منظور ہونے پر بعض سینیٹرز نے اعتراض بھی کیا اور اس میں ترامیم پیش کیں تاہم ان ترامیم کو بل کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی کا ایوان میں خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایوان میں جو بل پاس ہوئے ہیں ان کے حوالے سے علم نہیں ہے کہ ان میں کیا ہے۔ اس طرح قانون سازی نہیں ہونی چاہیے۔

انہوں نے سینیٹ سے واک آوٹ کا اعلان کیا اور ایوان سے باہر چلے گئے۔ بعد ازاں بلوچستان کی نیشنل پارٹی کے سینیٹر طاہر بزنجو بھی احتجاجاََ واک آؤٹ کر گئے۔

قبل ازیں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے بل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پانچ ماہ قبل آرمی، نیوی اور فضائیہ کے سربراہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع پر قانون سازی کا بل سینیٹ میں جمع کرایا تھا لیکن چیئرمین سینیٹ اس بل کو ایجنڈے پر نہیں لا رہے۔

سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ طریقۂ کار کی خلاف ورزی نہ کریں اور اسے سینیٹ کی کمیٹی کے پاس بھیجیں تاکہ اس پر بحث ہو سکے۔

بعد ازاں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے بل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے پاس نہ بھیجنے کا اعلان کیا اور اس پر رائے شمارے کا آغاز کر دیا۔ وزیرِ دفاع نے بل شق وار پیش کیا جسے کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا۔

اس بل کے علاوہ وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کنٹونمنٹس ایکٹ 1924 میں مزید ترامیم کا بل اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اسلام آباد ایکٹ 2013 میں مزید ترامیم کا بل پیش کیا جسے ایوان نے منظور کر لیا۔

وزیر دفاع خواجہ آصف کی پی ٹی آئی خواتین سینیٹرز سے متعلق ریمارکس کا معاملہ سینیٹ میں بھی زیر بحث رہا جہاں خواجہ آصف نے اپنے بیان پر معذرت سے انکار کیا۔

خواجہ آصف نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے مریم نواز سے متعلق کیا کچھ کہا۔ یہ پہلے مریم نواز سے معافی مانگیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے خواتین کے بارے میں کوئی ریمارکس نہیں دیے۔

وزیرِ دفاع خواجہ آصف کے معذرت سے انکار پر تحریکِ انصاف کے سینیٹرز نے ایوان سے واک آؤٹ کر دیا۔

'فوج کے ڈسپلن میں مزید سختی کی گئی ہے'

پاکستان فوج کے سابق افسر لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ ان ترامیم کے ذریعے فوج کے اندر ڈسپلن کو مزید سخت کیا گیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ وردی میں رہتے ہوئے فوج کے خلاف کوئی بات نہیں کر سکتا اور نہ ہی کرنی چاہیے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ایسے افراد جو حساس عہدوں پر فائز رہے ہوں وہ پانچ سال تک سیاست سے دُور رہیں گے یہ بھی اچھی ترمیم ہے۔

جنرل لودھی نے کہا کہ فوج معاشرے کا ہی حصہ ہے، لہذا یہ نہیں ہو سکتا کہ معاشرے میں ہونے والی تقسیم کا اثر فوج پر نہ پڑے۔

اُن کے بقول اس طرح کے اقدامات کرنا ضروری تھا تاکہ فوج کے اندر یہ پیغام جائے کہ کسی بھی قسم کی بغاوت برداشت نہیں کی جائے گی۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے استعمال کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس کا اطلاق آرمی کے علاوہ سویلین پر بھی ہونے جا رہا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ماضی میں صرف آرمی آفیشل سیکرٹ ایکٹ تھا۔ لیکن اب اسے مزید سخت بنایا جا رہا ہے اور ایسے سویلین جو آرمی کے سیکرٹ کو آشکار کریں ان پر بھی اس ایکٹ کا اطلاق ہو سکے گا۔

'ترامیم کا مقصد سابق فوجی افسران کو ڈسپلن کا پابند کرنا ہے'

پاکستان فوج کی جیگ برانچ کے سابق افسر اور وکیل کرنل ریٹائرد انعام الرحیم کہتے ہیں کہ کچھ ایسے واقعات پیش آئے ہیں جس کی وجہ سے یہ قوانین بنانا پڑے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ان قوانین کے ذریعے ریٹائر ہونے والے افسران کو آرمی کے ڈسپلن میں لایا گیا ہے، اب حساس پوسٹنگ پر کام کرنے والے پانچ سال تک سیاست میں نہیں آسکیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ بعض سابق فوجی افسران کا ایک گروپ حالیہ عرصے میں ایک سیاسی جماعت کا حصہ بنا کر ان کے ساتھ شامل ہوا جس سے فوج کی ساکھ اور مورال کو نقصان پہنچا۔

اُن کے بقول بعض ریٹائرڈ افسران نے کتابیں لکھیں اور اہم انکشافات کیے جو ملک کے لیے نقصان دہ تھے۔ اس وجہ سے حکومت اور فوج نے یہ قانون سازی کی ہے جس کے تحت ان افسران کو مزید پابند بنایا جاسکے گا۔

XS
SM
MD
LG