ساتواں کراچی لٹریچر فیسٹیول ختم ہو چکا ہے۔ لیکن، اس کی گونج اب تک باقی ہے۔ فیسٹیول کے پہلے دن پہلے سیشن میں بھارت سے آنے والی ایک شخصیت نے کچھ ایسی سچائیاں اور معاشرے کی تلخ حقیقتیں بیان کیں کہ سنے والوں کے ذہنوں میں بہت سے حل طلب سوالات اٹھ کھڑے ہوئے۔
یہ شخصیت ہے لکشمی نرائن ترپاٹھی کی جو خواجہ سرا ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی کارکن بھی ہیں۔ ڈانسر، اداکارہ اور سیلیبرٹی، لکشمی نرائن ترپاٹھی چاہتی ہیں کہ جنس کے پیشے سے جڑے افراد، خاص کر خواجہ سراوٴں اور ایڈز میں مبتلا افراد کو انسانی حقوق ملیں۔ انہیں پہچان ملے۔
دنیا بھر کے خواجہ سراوٴں کے حقوق کے لئے ان کی آواز میڈیا کے ذریعے سامنے آئی۔ وہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں سے بھی وابستہ ہیں اور ’استیتو‘ کے نام سے ایک ٹرسٹ بھی چلارہی ہیں۔ اپنے کام کے سبب وہ بھارت کے سرفہرست سوشل ورکرز میں شمار کی جاتی ہیں۔
وہ ایسی پہلی خواجہ سرا ہیں جنہوں نے ایشیا پیسفک کی ’سول سوسائٹی ٹاسک فورس برائے ایڈز‘ میں اپنے ملک کی نمائندگی کی۔ وہ ’ایم ڈی پی ایس‘ اور ایشیا پیسفک ٹرسٹ ’جینڈر نیٹ‘ کی بانی رکن بھی ہیں۔
ان کی ایک کتاب ”میں ہجڑا، میں لکشمی“ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان کے تحت شائع ہوچکی ہے۔ اسی کی مصنفہ ہونے کی حیثیت سے انہیں کراچی لٹریچر فیسٹیول میں اظہار خیال کے لئے مدعو کیا گیا تھا، جبکہ اس موضوع پر دو سیشنز رکھے گئے تھے۔
فیسٹیول کے سب سے پہلے سیشن میں ہی انگنت لوگوں نے لکشمی کے خیالات سنے اور ان کی کتاب بھی خریدی۔ شرکا ان کے خیالات سے اس قدر متاثر ہوئے کہ کتاب پر ان کے دستخط لینے کی باری آئی تو لمبی لمبی لائنیں لگ گئیں جبکہ سیشن کے دوران شرکاء نے ان سے بہت سارے سوالات بھی کئے جن کا انہوں نے بخوبی ہندی اور انگریزی میں جم کر جواب دیا۔
کئی سوالات بہت کڑوے اور چبھتے ہوئے بھی تھے۔ لیکن لکشمی نے تحمل مزاجی سے ان سوالوں کا جواب دیا۔ سیشن کا عنوان سوالیہ نشان لئے ہوئے تھا کہ ’ کیا خواجہ سراوٴں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں؟‘
لکشمی نرائن ترپاٹھی خود کو خواجہ سرا کے طور پر متعارف کرانے میں ذرا نہیں جھکتیں۔ وہ کہتی ہیں ”میں نہ مرد ہوں۔۔نہ عورت۔ میں ہجڑا ہوں‘‘ شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب کا نام بھی کچھ اسی طرح کا رکھا ہے، یعنی ”میں ہجڑا۔۔ میں لکشمی “
خواجہ سراوٴں کے حقوق کی علم بردار لکشمی نرائن ترپاٹھی نے خواجہ سراوٴں سے متعلق حقائق کھل کر بیان کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ سراوٴں کے لئے استعمال کیا جانے والا لفظ ”شی۔میل“ انتہائی واہیات ہے۔ کسی بھی برادری کوایسے ناموں سے نہیں پکارا جانا چاہئے۔
لکشمی کے بقول ”بھارت میں خواجہ سراوٴں کے حقوق کے حوالے سے کافی پیشرفت ہوئی ہے۔ میرے ایک شاگرد نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اس کی تعلیم کے اخراجات ریاستی حکومت برداشت کررہی ہے۔ اس کا علیحدہ رہائش کا مطالبہ بھی قبول کیا گیا اوراسے ایک الگ رہائش بھی فراہم کی گئی۔“
ریاست کیرالہ میں خواجہ سراوٴں کے لئے الگ بلاک کی تعمیر پر سوال اٹھاتے ہوئے لکشمی نے کہا ”یہ کیوں تصور کر لیا گیا ہے کہ خواجہ سراوٴں کی بڑی تعداد جرائم پیشہ ہوتی ہے۔ پہلے خواجہ سراوٴں کوان کے حقوق دئیے جائیں اور پھر ان کو جیل میں علیحدہ جگہ فراہم کی جائے۔ اگر خواجہ سراوٴں کو جمعدار، ڈاکٹر یا کسی اور دوسرے پیشے میں آسانی سے جانے کا اختیار دیا جائے تو خواجہ سرا ”غیرقانونی کاموں کی جانب رخ نہیں کریں گے۔“
اس موضوع پر ہونے والے دوسرے سیشن کا عنوان تھا ’خواجہ سرا۔۔ دوہری مشکل کا شکار“۔ اس سیشن سے جینڈر انٹر ایکٹو الائنس کی بانی رکن، بندیا رانا نے بھی خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا ’’ہماری برادری کے افراد سیکس ورکر کے طور پر کام کرتے ہیں جنہیں آدھی رات کو سڑکوں پر چلتے پھرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن کیا کسی نے بھی یہ جاننے کی بھی کوشش کی کہ وہ یہ کام کرنے پر کیوں مجبور ہیں؟“
برصغیر میں خواجہ سراوٴں کے بارے میں ایک مخصوص نظریہ ہے اور خواہ کچھ بھی ہوں، انہیں اسی مخصوص نظرئیے اور کسی حد تک تعصب کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ بندیا رانا کے بقول ”کسی غریب گھرانے کا بچہ ڈانس کرے تو وہ جگہ قحبہ خانہ کہلاتی ہے۔ لیکن، اگر امیر کا بچہ ناچے تو اسے ’آرٹ‘ کہا جا تا ہے۔خواجہ سراوٴں کو زبردستی عورت یا مرد کا روپ اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ووٹ ڈالنے کے موقع پر خواجہ سراوٴں کے لئے کوئی علیحدہ قطار نہیں ہوتی۔ مردوں کی قطار میں جائیں تو وہ کہتے ہیں خواجہ سرا مرد نہیں ہوتے اور خواتین کی قطار میں کھڑا ہوں تو بھی یہی کہا جاتا ہے کہ عورتوں میں خواجہ سرا نہیں ہوتے۔“
خواجہ سراوٴں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے ’کامی‘ کے بقول اگر کوئی بچہ عورت یا مرد کی کیٹیگری میں فٹ نہیں ہوتا تو اسے گھر سے نکال کر باہر کی دنیا میں پھینک دیا جاتا ہے جہاں اسے بدترین حالات کا سامنا ہوتا ہے۔ جنس سے قطع نظر ہر ماں کو اپنا بچہ پیارا ہوتا ہے۔ لیکن، یہ گھر کے مرد ہوتے ہیں جو زبردستی بچے کو گھر سے نکال پھینکتے ہیں۔“