پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے 'پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی' میں وکلا کے دھاوے کے دوران وزیرِ اعظم عمران خان کے بھانجے حسان نیازی کی تصاویر اور ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں۔
پولیس نے اسپتال پر حملے کے الزام میں 250 وکلا کے خلاف 11 دفعات کے تحت مقدمات درج کیے ہیں۔ پولیس نے درجنوں وکلا کو گرفتار کیا ہے۔ لیکن حسان نیازی کا نام مقدمے میں شامل نہیں ہے۔
حملے کے بعد سے ہی سوشل میڈیا پر مختلف صارفین حسان نیازی کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن تاحال پولیس نے اُنہیں گرفتار نہیں کیا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ یہ تاثر درست نہیں کہ پولیس حسان نیازی کی گرفتاری میں سنجیدہ نہیں۔
انویسٹی گیشن پولیس لاہور کے مطابق، جمعے کو حسان نیازی کی گرفتاری کے لیے ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا گیا۔ لیکن گھر پر نہ ہونے کے باعث وہ گرفتار نہیں ہو سکے۔
پولیس حکام کا دعویٰ ہے کہ "حسان نیازی کی گرفتاری کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔"
تاہم، پولیس نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کون سی جدید ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے حسان نیازی کی گرفتاری عمل میں لائی جا رہی ہے۔
سینئر قانون دان ڈاکٹر خالد رانجھا کا کہنا ہے کہ اگر اس واقعے کو روکنے میں ناکامی پر مقامی انتظامیہ اور پولیس افسران کے خلاف مقدمہ درج کر لیا جائے تو حسان نیازی کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وکلا ضلع کچہری سے اسپتال تک ساڑھے آٹھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے پہنچے۔ لاہور میں جابجا سیف سٹی کیمرے بھی نصب ہیں۔ اس کے باوجود سیکڑوں وکلا اسپتال پہنچنے میں کامیاب ہوئے یہ صریحاً انتظامیہ کی غفلت ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما مشاہد اللہ خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے انصاف کا نعرہ لگا کر پہلے دن سے ہی نااںصافیوں کا آغاز کر رکھا ہے۔
ان کے بقول، "عمران خان کی کابینہ میں بدترین کرپشن ہو رہی ہے اور وہ کوئی ایکشن نہیں لے رہے۔ لہذٰا، وہ اپنے بھانجے کے خلاف کیسے کارروائی کرا سکتے ہیں۔"
سینئر صحافی سلیم بخاری کا کہنا ہے کہ حسان نیازی حفیظ اللہ نیازی کے بیٹے ہیں، جن کی ہمدردیاں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہیں۔ سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ اُنہیں نہیں لگتا کہ حسان نیازی کسی رشتے کی بنیاد پر اس دن کے احتجاج میں شریک تھے۔
سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ حسان نیازی وکیل ہیں۔ لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ کیا اُنہیں کسی کے دباؤ میں آ کر گرفتار نہیں کیا گیا یا اس کی کوئی اور وجہ ہے۔
سلیم بخاری کے مطابق، جو کچھ وکلا نے کیا وہ کارروائی نہیں بلکہ ایک 'واردات' تھی۔ لہذٰا، کسی کو معافی نہیں ملنی چاہیے، چاہے کوئی کسی کا بیٹا ہے یا کسی کا بھانجا ہے۔
ان کے بقول، "جو کچھ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ہوا، قانون کے مطابق سب کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔"
وزیرِ اعظم کے بھانجے حسان نیازی نے واقعے کے بعد اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ اُنہیں صرف یہ معلوم تھا کہ وکلا اسپتال کے باہر پرامن احتجاج کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس واقعے پر پریشان ہیں۔ اس معاملے پر سیاست کو بالائے طاق رکھ کر سب کو متحد ہو کر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیے۔
وزیرِ اعظم پاکستان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے بھی حسان نیازی کی موقع پر موجودگی پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔
جمعے کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ حسان نیازی ایف آئی آر کا حصہ نہیں۔ لیکن، وہ قانون کی گرفت میں آئیں گے۔
فردوس عاشق اعوان کا مزید کہنا تھا کہ حسان نیازی کا تعارف یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ حفیظ اللہ نیازی کے صاحبزادے ہیں۔
حفیظ اللہ نیازی پاکستان تحریک انصاف کے اہم رہنماؤں میں شامل تھے۔ لیکن عمران خان سے اختلافات کے باعث انہوں نے تحریک انصاف چھوڑ دی تھی۔
حسان نیازی کون ہیں؟
حسان نیازی پیشے کے اعتبار سے وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن ہیں۔ وہ تحریک انصاف کے طلبہ ونگ انصاف اسٹوڈنٹ فیڈریشن (آئی ایس ایف) کے بھی عہدیدار رہ چکے ہیں۔
خیال رہے کہ بدھ کو وکلا کے ایک گروہ نے لاہور میں صوبہ پنجاب میں دل کے سب سے بڑے اسپتال پر دھاوا بول دیا تھا۔ وکلا نے اسپتال کے مختلف شعبوں میں توڑ پھوڑ کے علاوہ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل عملے کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا تھا۔
وکلا کے اس حملے کے بعد ڈاکٹروں نے اسپتال میں مریضوں کا علاج روک دیا تھا۔ لیکن جمعے کو مریضوں کو طبی سہولیات کی فراہمی کا عمل جزوی طور پر بحال ہوا۔
پولیس نے ہنگامہ آرائی کے الزام میں گرفتار وکیلوں کو جمعرات کو لاہور کی مقامی عدالت میں پیش کیا تھا، جنہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے۔