پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا'سینیٹ' کی ایک کمیٹی نے ملک میں انسداد ہشت گردی سے متعلق وضع کیے گئے قومی لائحہ عمل کے تحت گزشتہ تین سالوں کے دورانکی گئی کارروائیوں کے باعث دہشت گردی کے واقعات میں ہونے والی نمایاں کمی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے تاہم اس کے ساتھ ہی قانون سازوں نے مدارس کو قومی تعلیمی دھارے میں شامل کرنے کی کوششوں کی سست روی پر تحفظات کا اظہار بھی کیا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ امور نے انسداد دہشت گردی کے قومی ادارے نیکٹا سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ملک میں شدت پسند گروپ داعش سے منسلک عناصر کی مبینہ موجودگی کی مکمل تحقیقات کر کے کمیٹی کو رپورٹ پیش کرے۔
قانون سازوں نے یہ بات اس وقت کہی جب جمعہ کو نیکٹا کے سربراہ حسان غنی نے ملک میں گزشتہ تین سالوں کے دوران قومی لائحہ عمل پر عمل درآمد کے حوالے سے ادارے کی رپورٹ پیش کی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران ملک میں ہونے والی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کی نتیجے میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایا ں کمی ہوئی ہے ۔
رپورٹ کے مطابق 2010ء میں دہشت گردی کے دوہزار سے زائد واقعات ہوئے جو 2017ء میں کم ہو کر 681 ہو گئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس کی وجہ ملک میں بڑے پیمانے پر شدت پسندوں کے خلاف انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر ہونے والی کارروائیاں ہیں اور گزشتہ تین سالوں کے دوران ایسی دو لاکھ سے زائد کارروائیاں کی گئی ہیں۔
نیکٹا کا کہنا ہے کہ ملک میں نفرت پر مبنی مواد کے ابلاغ اور ترویج میں ملوث 19 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ ملک میں 14 سو سے زائد ایسی ویب سائیٹس کو بلاک کیا گیا جو انتہا پسندی کے بیانیے کی ترویج میں مبینہ طور پر استعمال ہو رہی تھیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں 65 شدت پسند تنظیموں کو کا لعدم قرار دیا جا چکا ہے اور نام بدل کر دوبار کام کرنے والی تنظیموں کے خلاف بھی موثر کارروائی کی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں 20 ہزار سے زائد مدارس کام کر رہے اور ان میں سے زیادہ تر کی جیوٹیگنگ کا کام مکمل ہو چکا ہے اورانہیں ایک ضابطہ کار کے تحت لانے کا کام جاری ہے۔
تاہم رپورٹ میں مدارس کو قومی تعلیمی دھارے میں لانے کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کی تفصیل بیان نہیں کی گئی ہے۔
کمیٹی کے رکن سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی کو سراہا، تاہم انہوں نے کہا کہ ملک میں ہزاروں کی تعداد میں مذہبی مدارس اور نظام انصاف میں دور رس اصلاحات کے حوالے سے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
"مستقبل کی نسلوں کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ مدارس میں اصلاحات بہت ضروری ہیں جو ابھی تک نہیں ہوئیں، ملک کے نظام انصاف کی اصلاح کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے"
حکومت کا کہنا ہے کہ مدرسوں کو ملک کے مرکزی تعلیمی دھارے میں لانے کے لیے ان کے نصاب میں اصلاحات کے لئے کام جاری ہے۔
پاکستان بھر میں ہزاروں کی تعداد میں مدارس قائم ہیں جہاں لاکھوں کی تعداد میں طالب علم مذہبی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ بعض مدارس ملک میں انتہا پسندی کے فروغ کا باعث بن رہے ہیں اس لیے ان کے تعلیمی نصاب میں اصلاحات ضروری ہیں جبکہ کہ حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ملک میں قائم زیادہ تر مدارس کا انتہا پسندی اور دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں اور حکام کے مطابق جن مدرسوں کے خلاف شواہد ملتے ہیں ان کے خلاف کارروائی بھی کی جاتی ہے۔