لاهور ہائی کورٹ کے فل بنچ نے عوامی تحریک کو رات بارہ بجے تک دھرنا دینے کے مشروط اجازت دے دی۔ عدالت نے رات بارہ بجے کے بعد میڈیا کو بھی کوریج سے روک دیا۔
لاهور ہائی کورٹ کے جسٹس امین الدین خان، جسٹس شاہد جمیل اور جسٹس شاہد کریم پر مشتمل تین رکنی فل بنچ نے مختصر فیصلہ سنایا۔ عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ ڈپٹی کمشنر لاهور کی جانب سے عدالت کے روبرو کی جانے والے یقین دہانی کے مطابق دھرنے کے شرکا کو مکمل سیکیورٹی فراہم کی جائے۔ راہ گیروں اور ٹریفک کی بحالی کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ عدالت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ دھرنا ایک مخصوص وقت کے بعد ختم کر دیا جائے۔ اور’ میڈیا رات بارہ بجے کے بعد دھرنے کے شرکاء کی کوریج بند کر دے۔ عدالت نے حکومت پنجاب، آئی جی پنجاب، ڈی سی لاهور کو عمل درآمد کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت31 تک ملتوی کر دی۔ عدالت نے دھرنوں کے خلاف قانونی نکات کی وضاحت کے لئے فریقین کے وکلاء کو آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔
سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے صوبائی حکومت کی جانب سے دھرنے اور احتجاج سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی جس پر جسٹس شاہد جمیل نے استفسار کیا کہ ہوم سیکرٹری عدالت میں پیش کیوں نہیں ہوئے۔ ہوم سیکرٹری ذمے دار ہیں اور انہیں عدالت میں پیش ہونا چاہیے تھا۔
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے سوال کیا کہ 'آپ نے دھرنا روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے، کیا آپ کو معلوم ہے کہ دھرنے کے باعث ہم عدالت میں کیسے پہنچے؟'
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ دھرنا انتظامیہ کو دھرنے سے ہونے والے مسائل اور سیکیورٹی خدشات سے آگاہ کیا ہے۔
عدالت نے وکیل لطیف کھوسہ سے استفسار کیا کہ دھرنا کب تک جاری رہے گا؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ 'ابھی تک یہی فیصلہ ہے کہ صرف آج کے روز کے لیے دھرنا دیا جا رہا ہے'۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ حکومت کا فیصلہ ہے کہ عدالتی فیصلوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے، اگر ایسا ہی حکومتی رویہ رہا تو احتجاج کا دائرہ بڑھ سکتا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتوں کو عوام کے بنیادی حقوق کا خیال ہونا چاہیے۔ جمہوریت کا یہ مطلب نہیں کہ عام آدمي کے حقوق سلب ہوں۔
درخواست گزار اے کے ڈوگر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ رات ڈاکٹر طاہر القادری نے شہباز شریف اور رانا ثناءکے استعفے تک دھرنے کا کہا اور اب بات استعفوں سے بھی آگے نکل گئی ہے۔
درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ حکومت خوفزدہ ہے کہ کہیں مزاحمت پر خون نہ بہہ جائے۔ اگر حکومت قانون پر عمل نہیں کروا سکتی تو اسے حکومت کرنے کا حق نہیں۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد مال روڈ پر دھرنا روکنے سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا اور بعد ازاں مختصر فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا کہ مال روڈ پر جلسہ رات 12 بجے تک ختم کر دیا جائے۔
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری کے احتجاج میں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، پاک سرزمین پارٹی اور جماعت اسلامی بھی شامل ہیں جن کے قائدین آج احتجاج میں بھی شریک ہوں گے۔