پنجاب کے صوبائی درالحکومت لاہور کی پولیس نے نیشنل کالج آف آرٹس کے ایک طالبِ علم کے قتل کے بارے میں سوشل ميڈيا پر چلنے والی خبروں کی ترديد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ نوجوان کا قتل توہینِ مذہب کی وجہ سے نہیں بلکہ کرائے کی رقم کے تنازع پر ہوا۔
پولیس کے مطابق 17 جولائی کی رات این سی اے کے طالب علم قطب رند اور مالک مکان احسن زاہد کے درمیان کرائے کی رقم کے لین دین پر جھگڑا ہوا تھا۔ ہاتھا پائی کے دوران ملزم احسن نے قطب رند کو چھت سے دھکا دے دیا تھا جس کی وجہ سے اس کے سر پر چوٹ آئی اور اُس کی موت واقع ہو گئی تھي۔
قطب رند کا تعلق صوبۂ سندھ کے شہر جیکب آباد سے تھا اور وہ تعلیم کی غرض سے لاہور میں رہ رہے تھے۔
ان کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر بعض ایسی پوسٹس سامنے آئی تھیں جن میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہیں مبینہ طور پر توہینِ مذہب کے الزام پر قتل کیا گیا۔ بعض پوسٹس میں ان کے قتل کو صوبائی منافرت کا رنگ دینے کی بھی کوشش کی گئی تھی۔
بعض سندھی اخبارات کے مطابق مقتول نوجوان کے اہلِ خانہ نے دعویٰ کیا تھا کہ نوجوان کو توہینِ رسالت کے الزام پر بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد مکان کی بالائی منزل سے نیچے دھکا دے کر قتل کیا گیا۔ تاہم پولیس نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔
ایس پی انویسٹیگیشن اقبال ٹاؤن بلال ظفر نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ قطب رند کے قتل کے ملزم احسن زاہد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور وہ اور ایک اور نامزد ملزم اس وقت پولیس کی حراست میں ہیں جن سے مزید تفتیش جاری ہے۔
بلال ظفر نے واضح کیا کہ قطب رند کے قتل میں توہینِ مذہب، توہینِ رسالت یا صوبائی تعصب کا کوئی کردار نہیں تھا اور سوشل میڈیا پر اس واقعے کو غلط رنگ دے کر پھیلایا جا رہا ہے۔
قتل کا یہ واقعہ ساندہ کے علاقے پریم نگر میں پیش آیا تھا جہاں کے رہائشیوں نے بھی تصديق کي ہے کہ جھگڑا کرائے کے تنازع پر ہوا۔
پریم نگر کے رہائشی سلیم احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ قطب رند اس سے پہلے بھی مالکِ مکان کے ساتھ کئی مرتبہ الجھ چکا تھا۔
ان کے بقول قطب رند اکثر کرایہ دیر سے ادا کرتا تھا جس کے باعث کرائے دار اور مالک مکان کے درمیان جھگڑا رہتا تھا۔
پریم نگر ہی کے ایک اور رہائشی محمد ارشاد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملزم احسن اور قطب رند کے درمیان کرائے کے لین دین پر تلخ کلامی ہوئی تھی جو ہاتھا پائي تک جا پہنچی۔ اسی دوران قطب رند چھت سے نيچے گرا اور اسے شدید چوٹیں آئیں۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم غیر سرکاری تنظیم 'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان' کے چیئرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو بھی سوشل میڈیا پر کسی دوسرے شخص یا گروہ کے بارے میں غلط خبریں یا معلومات نہیں پھیلانی چاہئیں۔
ڈاکٹر مہدی حسن سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر کسی بھی غلط معلومات کو روکنا آسان نہیں البتہ حکومت کو غلط خبریں روکنے کے حوالے سے ایکشن لینا چاہیے۔