رسائی کے لنکس

جاپان: زمین کی قلت سے قبرستان تنگ، متبادل طریقوں سے مردے دفنانے کی کوشش


جاپان میں لوگ اپنے پیاروں کی راکھ درختوں کے درختوں کے نیچے دفن کرنے لگے، فائل فوٹو
جاپان میں لوگ اپنے پیاروں کی راکھ درختوں کے درختوں کے نیچے دفن کرنے لگے، فائل فوٹو

جیسے جیسے آبادی بڑھتی چلی جا رہی ہے، دنیا بھر کے بڑے شہروں میں مردوں کو دفن کرنے کے لیے جگہ تنگ پڑتی جا رہی ہے۔ امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک کے شہری علاقوں میں قبرستانوں میں جگہ کی کمی کی وجہ سے مردوں کو دفن کرنے کے نئے طریقے ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ اس مسئلے کے پیش نظر جاپان میں 1990 کی دہائی سے ’’ٹری برئیل‘‘ یعنی درختوں کے ذریعے تدفین کا انوکھا طریقہ شروع کیا گیا ہے۔

1990 میں شروع ہونے والی 'گریو فری پروموشن سوسائٹی' یعنی قبرستان کے تصور کو ختم کرنے کے طریقے کے فروغ پر کام کرنے والی ایک تنظیم نے انسانوں کی راکھ کو، جسے بھارت میں استھیوں کہا جاتا ہے، بکھیرنے کے کام کی عوامی سطح پر تشہیر کی۔ لیکن 1991 میں شمالی جاپان کے شونجو ٹمپل نے ایک نیا طریقہ متعارف کروایا، جسے 'ٹری برئیل' کہا جاتا ہے۔

ٹری برئیل کے طریقے میں پیاروں کی استھیوں یعنی ان کے جسم کی راکھ کو زمین میں دفن کر کے اس پر درخت لگا دیا جاتا ہے۔

شونجو ٹمپل نے چسہوین نامی ایک نیا اور قدرے چھوٹا ٹیمپل ایک چھوٹے سے جنگل کے پاس بنایا۔ جنگل کے اندر ایک چھوٹے سے باغ میں جاپانی مذہبی رہنما مرنے والوں کی آخری رسومات ادا کرتے ہیں۔ یہاں مرنے والے کے خاندان بھی اپنے پیاروں کی آخری یادگاروں کو آ کر دیکھ سکتے ہیں۔

روس کے شہر پیٹس برگ میں کرونا کی وبا سے ہلاک ہونے والے شخص کو سپرد خاک کرنے کے لیے لانے والے حفاظتی لباس پہنے ہوئے ہیں۔
روس کے شہر پیٹس برگ میں کرونا کی وبا سے ہلاک ہونے والے شخص کو سپرد خاک کرنے کے لیے لانے والے حفاظتی لباس پہنے ہوئے ہیں۔

بہت سے خاندان جو یہ طریقہ کار اختیار کر رہے ہیں، وہ اپنی شناخت بودھ مذہب سے نہیں کرتے۔

جاپان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی پیاروں کو دفنانے کے نت نئے طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں۔ سنگاپور میں حکومت نے خاندانی مقبرے توڑ کر کبوتر خانوں جیسی عمارتوں کی اجازت دی ہے جہاں مُردوں کی سمادھیوں کو رکھا جا سکتا ہے۔ وہاں قبریں صرف 15 برس تک رکھی جا سکتی ہیں جس کے بعد مردوں کو نکال کر جلانے کے بعد لوگ ان کی راکھ سمادھیوں میں رکھ لیتے ہیں اور قبر کی جگہ دوبارہ استعمال کر لی جاتی ہے۔

اسی طرح ہانگ کانگ میں، جہاں زمین دنیا بھر میں سب سے مہنگی ہے، حکومت نے پاپ سٹارز اور دوسری مشہور شخصیات سے کہا ہے کہ وہ دفن کیے جانے کے بجائے جلانے کے طریقہ کار کو فروغ دیں۔

بھارت کے شہر بنگلور کا ایک شمشان گھاٹ۔ ہندو اپنے مردے جلانے کے بعد اس کی راکھ دریائے گنگا میں بہا دیتے ہیں۔
بھارت کے شہر بنگلور کا ایک شمشان گھاٹ۔ ہندو اپنے مردے جلانے کے بعد اس کی راکھ دریائے گنگا میں بہا دیتے ہیں۔

امریکہ میں اکثر قبرستان قبروں کی جگہ سو سال یا اس سے کم مدت کے لیے لیز پر دیتے ہیں۔ بہت سی جگہوں پر اس سے بھی کم مدت کی لیز لینے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی نئی روایات کی وجہ دنیا بھر میں مذہبی اداروں کا زوال اور مختلف روحانی خیالات کا فروغ ہے۔ لیکن بقول اے پی کے دفن کرنے کی نئی روایات سے ہمیں دنیا بھر میں مذہبی اور روحانی رسوم میں تنوع کا پتہ چلتا ہے جو نئے ماحولیاتی اور سماجی مسائل کے ردعمل میں تشکیل پا رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG