جنوبی کیلیفورنیا میں ایک اسلامی مرکز کی سیڑھیوں پر ایک بین المذاہب دعائیہ تقریب میں مسلم رہنماؤں نے کہا کہ امریکی تاریخ کے سب سے مہلک قتل عام کے بعد ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
اسلامک سنٹر آف سدرن کیلیفورنیا کی چیئرپرسن حداب طریفی نے کہا کہ ’’ہمیں خود وہ تبدیلی بننے کی ضرورت ہے جو ہم چاہتے ہیں۔ تبدیلی کا آغاز ہماری ذات سے ہو گا۔ بہت باتیں ہو گئیں۔ یہ عمل کا وقت ہے۔ یہ گن کنٹرول اور جان کی حفاظت اور تقدس کے لیے ایک قومی مہم چلانے کا وقت ہے۔‘‘
پولیس کے مطابق عمر صدیق متین نے فلوریڈا کے شہر اورلینڈو میں ہم جنس پرستوں کے ایک کلب میں فائرنگ کرکے 49 افراد کو موقع پر ہلاک کر دیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ متین نے ایک نیم خودکار رائفل سے کلب میں موجود افراد پر گولیوں کی بوچھاڑ کی۔
حداب طریفی نے کہا کہ ’’ہم اس کارروائی کی کھل کر واضح الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔‘‘
مسلم پبلک افیئرز کونسل کے صدر سلام الماریاتی نے اورلینڈو واقعے کے بارے میں کہا کہ ’’ہمارے مذاہب میں ہم جنس پرستوں، دونوں جنسوں کی طرف رجحان رکھنے والوں اور جنس تبدیل کرنے والے افراد کے خلاف تشدد کی کوئی جگہ نہیں۔‘‘
امریکہ کے صدر براک اوباما نے پیر کو کہا تھا کہ حملہ آور "مقامی انتہا پسندی کی ایک شکل ہے جس کے بارے میں ہم ایک عرصے سے تشویش ظاہر کرتے آ رہے ہیں۔"
ان کے بقول عمر متین کی انتہاپسندی کے متعلق معلومات تک رسائی میں انٹرنیٹ نے اہم کردار ادا کیا۔
بین المذاہب دعائیہ تقریب میں شامل وقاص نامی ایک شخص نے کہا کہ انٹرنیٹ کو بذات خود ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔
’’یہ انٹرنیٹ پر موجود معلومات کا معاملہ نہیں۔ آپ انٹرنیٹ پر موجود معلومات کو کیسے استعمال کرتے ہیں یہ اس کا معاملہ ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا نئی نسل کو ان چیزوں کے بارے میں رہنمائی کی ضرورت ہے جو وہ انٹرنیٹ سے سیکھتے ہیں۔
مقامی مسلم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ تمام مذہبی برادریوں میں اتحاد ضروری ہے۔ انہوں نے متشدد انتہا پسندی کے مقابلے اور اورلینڈو سانحے سے قوم کی بحالی کی کوششوں میں اپنا کردار ادا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔