کُرد قیادت والی جمہوریہٴ شام کی افواج نے بتایا ہے کہ رقعہ کو آزاد کرانے کے لیے کارروائی جاری ہے، جو شام میں داعش کا فی الواقع دارالحکومت ہے۔
آن لائن شائع ہونے والی وڈیو میں امریکہ سے وابستہ ایک گروپ کے دو رہنماؤں نے کہا ہے کہ شہر کو آزاد کرانے کی کارروائی شروع کردی گئی ہے، جس کا پہلا قدم شہر کے شمالی حصوں کو آزاد کرانا ہے۔
ایک خاتون کُرد کمانڈر، روجدہ فلات نے بتایا ہے کہ ’’ہم یہ کارروائی شمالی رقعہ میں (امریکی قیادت) والی اتحادی افواج کے تعاون سے کر رہے ہیں‘‘۔
بقول اُن کے، ’’داعش کے ہاتھوں ہمارے لوگوں کے خلاف کیے جانے والے حملوں کا ہم خاتمہ چاہتے ہیں‘‘۔
شام کا ایک گروپ جو داعش کے مظالم کے بارے میں خبریں جاری کرتا ہے، بتایا ہے کہ رقعہ کے حسام عیسیٰ کے علاقے میں خاموش قتلِ عام جاری ہے، اور یہ کہ فی الحال یہ کارروائی رقعہ کے شمالی دیہات تک محدود ہے۔
عیسیٰ نے بتایا کہ ’’میرے خیال میں، فیصلہ کرنے میں، شامی کُرد افواج (وائی پی جی) کو کافی وقت درکار ہوگا کہ وہ رقعہ شہر کی جانب پیش قدمی کریں۔ اس میں اُنھیں امریکی لڑاکا طیاروں کی مدد حاصل ہے۔ اُنھوں نے تل السمان اور الحریشہ کے قصبہ جات کے گِرد علاقوں کو نشانہ بنایا ہے، جو رقعہ سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ یہ علاقے تقریباً شہریوں سے خالی ہیں۔ زیادہ تر مکین رقعہ شہر چھوڑ چکے ہیں‘‘۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اپنے دورہٴ ازبکستان کے دوران کہا ہے کہ روس رقعہ کو خالی کرانے کے لیے کُردوں اور امریکی قیادت والے اتحاد کی کوششوں میں مدد دینے پر تیار ہے۔
امریکہ جمہورہٴ شام کی افواج کی حمایت کرتا ہے، جن میں زیادہ تر شامی کُرد شامل ہیں، جن میں لڑاکوں کی تعداد کم و بیش 25000 ہے، جس میں شامی عربوں کی تعداد کم ہے۔ یہ شاید 5000 سے 6000 ہے۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ اس میں عربوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔
ادھر، ’وائس آف امریکہ‘ کی ’آذربائیجان سروس‘ کو انٹرویو میں، سینٹر جان مکین نے کہا ہے کہ رقعہ کو واگزار کرانا انتہائی مشکل معاملہ ہوگا۔ تاہم، اس کارروائی کے لیے کافی تیاری کی گئی ہے، جب کہ اب عراق کے شہر فلوجہ کی جانب بڑھنے کا وقت آگیا ہے۔
اُنھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ’’بہت جلد رقعہ کو داعش کے شدت پسندوں سے خالی کرالیا جائے گا‘‘، جس کے لیے، بقول اُن کے، ’’ایک بڑی کارروائی کرنی ہوگی‘‘۔
جان مکین نے کہا کہ ’’داعش اتنی آسانی سے ہار نہیں مانے گی۔ وہ آخر تک لڑے گی، تاکہ زیر تسلط علاقے پر اپنی شدت پسندی برقرار رکھ سکے، جہاں سے وہ دنیا بھر کو اپنے لڑاکے روانہ کرتے ہیں‘‘۔
کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹک پارٹی کے رُکن کانگریس، ایڈم بینٹ شِف نے کہا ہے کہ ’’اپنے مضموم مقاصد کو جائز قرار دینے کے لیے، داعش نے اسلام کی غلط تاویل پیش کی ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ داعش قتل اور بربریت کے حربے استعمال کرکےایک وسیع قطعہ ارض پر قابض ہوگیا تھا۔
تاہم، اُنھوں نے کہا کہ ’’امریکی قیادت والے فوجی اتحاد کی کارروائیوں کے نتیجے میں، عراق میں داعش کے زیر تسلط علاقے کا 40 سے 45 فی صد علاقہ واپس لیا جا چکا ہے؛ جب کہ شام میں اِس انتہا پسند گروپ سے تقریباً 20 فی صد علاقہ واگزار کرا لیا گیا ہے‘‘، جو، بقول اُن کے، ’’فوجی کارروائی کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے‘‘۔
رکن کانگریس نے کہا کہ ’’دولت اسلامیہ کو یہ پتا چل گیا ہے کہ اُس کے دِن گنے جا چکے ہیں‘‘۔
بقول اُن کے، ’’داعش کو روکنا ہوگا اور اُسے مکمل شکست دینا ہوگی‘‘۔