نیدرلینڈز کے شہر ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف میں مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے متعلق مقدمے میں پاکستان کی قانونی ٹیم کی قیادت اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کریں گے۔
اس ضمن میں پاکستان کی طرف سے باضابطہ طور پر عالمی عدالت انصاف یعنی ’آئی سی جے‘ کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے عہدیدار ڈاکٹر محمد فیصل بدستور ’’کو ایجنٹ‘‘ کے طور پر کام جاری رکھیں گے۔
اسی سلسلے میں پاکستان کی ایک ٹیم نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کی قیادت میں آٹھ جون کو ہیگ کا دورہ کیا تھا اور ’آئی سی جے‘ میں پاکستان کے ایڈ ہاک جج کو تعینات کرنے کے معاملے پر بھی بات چیت کی تھی۔
عالمی عدالت انصاف کے دستور کے مطابق کسی بھی مقدمے میں ایسا ریاستی فریق جس کا کوئی شہری عالمی عدالت انصاف کا جج نہ ہو، مقدمے کی سماعت کرنے والے پینل میں ایک ایڈہاک جج کو تعینات کرنے کی درخواست دے سکتا ہے۔
مئی میں عالمی عدالت انصاف نے اپنے عبوری فیصلے میں کہا تھا کہ پاکستان میں زیر حراست اور فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے بھارتی شہری کلبھوشن یادیو کی سزا پر عدالت کا حتمی فیصلہ آنے تک عمل درآمد نہ کیا جائے۔
’آئی سی جے‘ کے اس عبوری حکم نامے کے بعد حزب مخالف کی طرف سے حکومت پاکستان کی حکمتِ عملی پر سوالات اٹھائے گئے تھے کہ پاکستانی کی قانونی ٹیم نے سماعت کے دوران اپنا موقف موثر انداز میں پیش نہیں کیا۔
تاہم حکام کا کہنا ہے کہ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے موثر حکمت عملی اپنائی گئی اور ابتدائی سماعت کے موقع پر بھی بہترین وکلا کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔
گزشتہ ماہ کلبھوشن یادیو نے اپنی سزا کے خلاف پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے رحم کی اپیل کی تھی، لیکن تاحال سرکاری طور پر یہ نہیں بتایا گیا کہ کلبھوشن کی اپیل پر کیا فیصلہ کیا گیا ہے۔
بھارت نے ’آئی سی جے‘ میں یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ کلبھوشن یادیو اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ایران میں تجارت کر رہے تھے، جہاں سے پاکستان نے اُنھیں اغوا کیا۔
لیکن پاکستان بھارت کے دعوے کو رد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مارچ 2016ء میں انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کارروائی کر کے کلبھوشن یادیو کو بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا، جو مبینہ طور پر بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ کا ایجنٹ اور بھارتی بحریہ کا حاضر سروس ملازم ہے۔
اگرچہ بھارت نے یہ تسلیم کیا تھا کہ کلبھوشن بھارتی بحریہ کا سابق افسر ہے۔ تاہم بھارت کی طرف سے اس الزام کو مسترد کیا جاتا رہا کہ کلبھوشن کا تعلق 'را' سے ہے۔
بھارت 15 سے زائد مرتبہ کلبھوشن تک سفارتی رسائی کے لیے پاکستان سے درخواست کر چکا ہے لیکن اسلام آباد کی طرف سے اس کی اجازت نہیں دی گئی۔