عالمی عدالت انصاف کی جانب سے بدھ کو بھارتی شہری کلبھوشن یادھو کے فیصلے پر پاکستان اور بھارت دونوں ہی نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ فیصلہ اس کے حق میں ہے۔
عالمی عدالت انصاف نے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث بھارتی شہری کلبھوشن یادھو کی بریت اور بھارت کے حوالے کرنے سے متعلق بھارتی درخواست کو مسترد کر دیا۔
عدالت نے بھارت کی اپیل کے قابلِ سماعت ہونے پر پاکستان کے تینوں اعتراضات مسترد کرتے ہوئے کلبھوشن یادھو کو قونصلر رسائی دے دی۔
فیصلے کے مطابق اس کیس پر ویانا کنونشن کا اطلاق ہوتا ہے اور ویانا کنونشن جاسوسی کرنے والے قیدیوں کو قونصلر رسائی سے محروم نہیں کرتا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 36 میں جاسوسی کے الزام کی بنیاد پر قونصلر رسائی روکنے کی اجازت نہیں، اس لیے پاکستان کمانڈر کلبھوشن یادھو کو قونصلر رسائی دے جب کہ اسے دی جانے والی سزا پر نظر ثانی بھی کرے۔
ہالینڈ کے دارالحکومت ہیگ میں عالمی عدالت انصاف کے 15 رکنی بینچ نے کیس کا فیصلہ سنا دیا، بینچ میں پاکستان کا ایک ایڈ ہاک جج اور بھارت کا ایک مستقل جج بھی شامل تھا۔
فیصلہ عدالت انصاف کے صدر اور جج عبدالقوی احمد یوسف نے پڑھ کر سنایا۔ فیصلہ سننے کے لیے پاکستان کی جانب سے اٹارنی جنرل انور منصور خان، ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل اور دیگر افراد موجود تھے۔
عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن یادھو کی بریت اور رہا کرنے سے متعلق بھارتی درخواست کو مسترد کر دیا، جب کہ پاکستان کی فوجی عدالت سے کلبھوشن کو ملنے والی سزا کو چیلنج کرنے کی بھارتی استدعا بھی مسترد کر دی۔
کلبھوشن یادھو پاکستان کی تحویل میں ہی رہے گا۔ عالمی عدالت انصاف میں حسین مبارک پٹیل کے نام سے پاسپورٹ اصلی قرار دیا گیا۔
جج عبدالقوی احمد یوسف نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت ویانا کنونشن کے رکن ہیں اور دونوں ممالک پورے کیس میں ایک بات پر متفق رہے کہ کلبھوشن بھارتی شہری ہے۔
بھارت نے ویانا کنونشن کے تحت کلبھوشن یادھو تک قونصلر رسائی مانگی جب کہ پاکستان نے بھارتی مطالبے پر 3 اعتراضات پیش کیے۔ پاکستان کا موقف تھا کہ جاسوسی اور دہشت گردی کے مقدمے میں قونصلر رسائی نہیں دی جاتی اس لیے ویانا کنونشن کا اطلاق کلبھوشن کیس پر نہیں ہوتا۔
عدالت نے کہا کہ پاکستان کلبھوشن کو ان کے حقوق بتانے میں ناکام رہا اور اس نے بھارتی قونصل خانے کو کلبھوشن کی گرفتاری کی اطلاع بروقت نہیں دی۔
جج یوسف نے کہا کہ عدالت سمجھتی ہے کہ بھارت کی طرف سے اس کیس میں تعاون نہ کرنے کی بنیاد پر پاکستان کو یہ حق نہیں ملتا کہ وہ یادھو کو قونصلر تک رسائی نہ دے۔ پاکستان فوری طور پر یادھو کو اس کے بنیادی حقوق کے بارے میں مطلع کرے جو ویانا کنونشن کے آرٹیکل 36 میں بیان کیے گئے ہیں۔ اور فوری طور پر اسے قونصلر تک رسائی دے۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ کلبھوشن نے پاکستان کے آرمی چیف سے رحم کی اپیل کر رکھی ہے اس لیے اس کی سزا پر عمل درآمد نہ کیا جائے، اور کہا کہ پاکستان خود اپنے ذرائع استعمال کرتے ہوئے ان کی اپیل پر نظرِ ثانی کرے۔
جج یوسف نے کہا کہ عدالت سمجھتی ہے کہ بھارت کی طرف سے اس کیس میں تعاون نہ کرنے کی بنیاد پر پاکستان کو یہ حق نہیں ملتا کہ وہ یادھو کو قونصلر تک رسائی نہ دے۔
عدالت نے کہا کہ پاکستان فوری طور پر یادھو کو اس کے بنیادی حقوق کے بارے میں مطلع کرے جو ویانا کنونشن کے آرٹیکل 36 میں بیان کیے گئے ہیں۔ اور فوری طور پر اسے قونصلر تک رسائی دے۔
عدالت نے کہا کہ پاکستان کا عالمی عدالت انصاف کے دائرہ اختیار پر اعتراض مسترد کیا جاتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پاکستان نے کہا کہ گرفتاری کے وقت یادھو کے پاس بھارتی پاسپورٹ تھا جس پر اس کا نام حسین مبارک لکھا ہوا تھا۔ عدالت یہ سمجھتی ہے کہ اس وقت یادھو کو گرفتار کرنے کے لیے کافی ثبوت موجود تھے۔
بھارت نے دخواست کی تھی کہ ملٹری کورٹ کی طرف سے یادھو کو دی جانے والی سزا منسوخ کی جائے اور اس کا مقدمہ عام عدالت میں چلایا جائے۔
عالمی عدالت کا فیصلہ صرف رائے کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے پاس اس پر عمل کروانے کے اختیارات نہیں ہیں۔
عالمی عدالت انصاف میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادھو کیس کی آخری سماعت 18 فروری سے 21 فروری تک جاری رہی تھی۔ بھارتی وفد کی سربراہی جوائنٹ سیکرٹری دیپک متل نے جب کہ پاکستانی وفد کی سربراہی اٹارنی جنرل انور منصورخان نے کی تھی۔ سماعت کے دوران بھارت کی طرف سے ہریش سالوے نے دلائل پیش کیے جب کہ پاکستان کی طرف سے خاور قریشی نے کیس لڑا تھا۔
18 فروری کو بھارت نے کلبھوشن کیس پر دلائل کا آغاز کیا اور 19 فروری کو پاکستان نے اپنے دلائل پیش کیے۔ 20 فروری کو بھارتی وکلا نے پاکستانی دلائل پر بحث کی اور 21 فروری کو پاکستانی وکلا نے بھارتی وکلا کے دلائل پر جواب دیے، جب کہ سماعت مکمل ہونے کے بعد عالمی عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے عالمی عدالت کے فیصلے کے بعد اپنے ٹوئٹر بیان میں کہا کہ 'کمانڈر کلبھوشن یادیو کو بے گناہ قرار دے کر رہا کرنے اور ہندوستان واپس نہ بھجوانے کا عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ قابل تحسین ہے۔ وہ پاکستانی عوام کے خلاف جرائم کا ذمہ دار ہے۔ پاکستان قانون کی روشنی میں آگے بڑھے گا'۔
اسلام آباد میں دفترخارجہ نے بھی اس معاملہ پر بیان جاری کیا ہے جس میں ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ عالمی عدالت نے کلبھوشن یادھو کو بری اور رہا کرنے کی بھارتی استدعا منظور نہیں کی۔ پاکستان ایک ذمہ دار ملک کی طرح اپنی عالمی یقین دہانیوں سے پیچھے نہیں ہٹا۔ پاکستان کے پاس بہت کم وقت تھا لیکن پاکستان اس مقدمے میں گیا۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اب اس کیس پر قانون کے مطابق آگے بڑھے گا۔ کمانڈر کلبھوشن یادھو بھارتی نیوی کا حاضر سروس آفسر ہے۔ کمانڈر کلبھوشن یادھو، حسین مبارک پٹیل کی جعلی دستاویز پر پاکستان آیا۔ حسین مبارک پٹیل کا پاسپورٹ بھارت نے جاری کیا اور اصلی ہے۔ کمانڈر کلبھوشن یادھو پاکستان میں جاسوسی، ملک کو غیر مستحکم کرنے اور متعد دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث ہے۔ کمانڈر کلبھوشن کی دہشت گردانہ کاروائیوں کے نتیجے میں سینکڑوں پاکستانی لقمہ اجل بنے۔ کمانڈر کلبھوشن نے اپنی کارروائیوں کا اعتراف جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے کیا ہے۔ کمانڈر کلبھوشن یادھو بھارتی ریاستی دہشت گردی کی زندہ مثال ہے۔
دوسری جانب بھارت نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو بھارت کی فتح قرار دیا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی نے اپنی ایک ٹوئٹ میں اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک بھارتی اہل کار نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو بھارت کی کامیابی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس فیصلے سے کلبھوشن تک قونصلر رسائی آسان ہو گئی ہے اور اس مقدمے کو عام عدالت میں چلایا جا سکے گا۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق عدالت کے فیصلے کے آٹھ نکات میں سے سات بھارت کے حق میں ہیں۔
اخبار کے مطابق فیصلے میں 15 رکنی عدالت کے 14 ججوں نے بھارت کے موقف کی حمایت کی جب کہ ایک جج کی رائے پاکستان کے حق میں تھی۔