خیبر پختونخوا اسمبلی کو دھماکہ خیز مواد سے اڑانے کی مبینہ دھمکی پر حزبِ اختلاف کی جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) کے جنوبی وزیرستان سے رکن مولانا عصام الدین کی رُکنیت ایک روز کے لیے معطل کر دی گئی ہے۔
ان کے خلاف حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اسمبلی میں قرارداد پیش کی تھی۔ حزب اختلاف کی جماعتوں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے بھی اس کی حمایت کی۔
صوبائی اسمبلی میں پیش کی گئی قرار داد پر پاکستان مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی کے اراکین نے خاموشی احتیار کی۔
حکومتی جماعت کے رکن اسمبلی اور وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی ضیاء اللہ بنگش نے پیر کی شام اسمبلی کے اجلاس میں مولانا عصام الدین کے خلاف مذمتی قرارداد پیش کی جس کے بعد اسپیکر نے رکن اسمبلی کی رکنیت ایک دن کے لیے معطل کر دی اور مولانا عصام الدین کو ایوان سے نکل جانے کی ہدایت کی۔
اس موقع پر جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما مولانا لطیف الرحمٰن نے مولانا عصام الدین کی جانب سے معذرت کی۔ مگر اس معذرت کو نظر انداز کر دیا گیا اور اسپیکر نے مولانا عصام الدین کو اپنا مؤقف پیش کرنے کی بھی اجازت نہیں دی۔
گزشتہ ہفتے 25 اگست کو خیبر پختونخوا اسمبلی کے اجلاس کے دوران بحث میں حصہ لیتے ہوئے جنوبی وزیرستان سے رکن اسمبلی مولانا عصام الدین نے کہا تھا کہ سیکیورٹی فورسز کے ایک اعلیٰ افسر کے ساتھ عوامی مسائل پر ملاقات کے دوران ان کی بے عزتی کی گئی۔ اگر رکنِ اسمبلی کی یہی عزت اور وقار ہے تو پھر وہ خود کش جیکٹ پہن کر اس ایوان کو بارودی مواد سے اُڑا دیں گے۔
وزیرِ اعلیٰ کے مشیر کامران بنگش کا کہنا تھا کہ اس دن بھی مولانا عصام الدین کے ان الفاظ پر کئی ارکان اسمبلی نے افسوس کا اظہار کیا تھا۔ مگر اسمبلی کا اجلاس ختم ہو جانے کی وجہ سے وہ اس پر مزید کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکے تھے۔
کامران بنگش کا کہنا ہے کہ اس مذمتی قرارداد اور رکینت کی ایک دن کی معطلی کا مطلب آئندہ کے لیے اسمبلی کے بارے میں اس قسم کے الفاظ کے استعمال کو روکنا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ جذبات اور احساسات خواہ جو کچھ بھی ہوں، مگر اسمبلی کے متعلق پر تشدد الفاظ کا استعمال کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔
مذمتی قرارداد پر صوبائی وزیر شوکت علی یوسف زئی اور وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی ضیا اللہ بنگش کے ساتھ ساتھ عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک نے بھی دستخط کیے تھے۔
سردار حسین بابک کا اس بارے میں کہنا تھا کہ اے این پی سے تعلق رکھنے اراکینِ اسمبلی سمیت ایک ہزار سے زیادہ کارکن دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں۔ مگر پارٹی کے کسی بھی رہنما یا کارکن نے اسمبلی یا اداروں کے خلاف دہشت گردی اور تشدد کی کبھی بھی بات نہیں کی۔
اُنہوں نے کہا کہ اے این پی نے قرارداد کی اس لیے حمایت کی ہے کہ وہ ملک کے کسی بھی ادارے، فرد یا عہدیدار کے بارے میں تشدد کے حق میں نہیں ہیں۔ اے این پی عدم تشدد کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور نہ صرف ملکی سیاست بلکہ ایوان کے اندر بھی امن اور سیاسی استحکام کے لیے کوشاں ہے۔
جمعیت علماء اسلام (ف) کے معطل ہونے والے رکنِ اسمبلی مولانا عصام الدین کے مطابق اُنہوں نے صرف یہ کہا تھا کہ اگر اسمبلی کے رکن کی عزت کا خیال نہیں رکھا جا سکتا۔ تو پھر عوام کے مسائل اور مشکلات کا کس کو ادراک ہو گا۔
مولانا عصام الدین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ان کا مقصد کسی بھی قسم کی دھمکی یا تشدد پر اکسانا نہیں تھا۔
اُنہوں نے کہا کہ عوامی مسائل اور مشکلات کے حل، اسمبلی کے تقدس اور آئین کی بالادستی کے لیے اگر ان کی رکنیت معطل کی گئی ہے، تو یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
ان کے بقول وہ قیامِ امن، عوام کے مسائل کے حل اور اسمبلی کی عزت و احترام کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔
جنوبی وزیرستان سے رکنِ صوبائی اسمبلی مولانا عصام الدین کا تعلق مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت جمیعت علماء اسلام (ف) سے ہے۔
مولانا عصام الدین کے والد مولانا معراج الدین قریشی بھی 2002 سے 2013 تک قومی اسمبلی کے رکن رہے تھے۔ وہ دہشت گردی کے ایک واقعہ میں ہلاک ہو گئے تھے۔