شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ اُن، اب سے ایک برس قبل دنیا بھر میں تنہائی اور علیحدگی کے خول سے باہر آنے کے بعد متعدد عالمی ہنماؤں سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ وہ اس دوران صدر ٹرمپ سے دو مرتبہ مل چکے ہیں جب کہ جنوبی کوریا کے صدر مون جائے اِن سے اُن کی تین ملاقاتیں ہو چکی ہے۔ وہ چین کے صدر شی جن پنگ اور ویت نام کے صدر نوین فو ٹرونگ سے بھی مل چکے ہیں۔
اب یہ اشارے مل رہے ہیں کہ روس کے صدر ولادی میر پوٹن سے بھی اُن کی ملاقات ہونے والی ہے۔ روسی حکومت کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے پیر کے روز اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کم۔پوٹن سربراہ ملاقات کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
جنوبی کوریا کی نیم سرکاری نیوز ایجنسی یون ہیپ نے توقع ظاہر کی ہے کہ یہ سربراہ ملاقات آئندہ ہفتے ہو گی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سربراہ ملاقات کے لیے شمالی کوریا اور روس کے الگ الگ مقاصد ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کو بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا ہے اور اس تناظر میں وہ روسی صدر پوٹن سے اقتصادی امداد کا تقاضا کریں گے تاکہ وہ بعد میں امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ جوہری مسئلے پر زیادہ اعتماد کے ساتھ بات چیت کر سکیں۔
دوسری جانب پوٹن اس سربراہ ملاقات کو شمالی کوریا پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ شمالی کوریا کے جوہری پروگرام سے متعلق مذاکرات میں روس کو نظرانداز نہ کیا جا ئے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شام، یوکرین اور وینزویلا جیسے معاملات میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن کی پالیسیوں سے امریکی مفادات کو نقصان پہنچا ہے۔ تاہم سول کی کوکمن یونیورسٹی کے پروفیسر آندرے لینکوف کے مطابق اس بات کا امکان کم ہے کہ کم۔ٹرمپ سربراہ ملاقات کو نقصان پہنچانے میں پوٹن کوئی کردار ادا کریں گے کیونکہ فی الوقت روس کا شمالی کوریا پر کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے سلسلے میں روس اور امریکہ کے مفادات یکساں ہیں۔
آندرے لیکوف مزید کہتے ہیں کہ روس اپنے اہم تجارتی شراکت دار جنوبی کوریا کو ناراض نہیں کرنا چاہے گا۔
چین۔شمالی کوریا ریسرچ گروپ سے وابستہ تجزیہ کار اینٹنی رینا کا کہنا ہے کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے روس نے دونوں کوریاؤں میں سے جنوبی کوریا کو ترجیح دی ہے۔ تاہم 1990 کی دہائی کے وقت سے روس نے شمالی اور جنوبی کوریا کے ساتھ دو طرفہ تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔
اینٹنی رینا کہتے ہیں کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد روس مشرقی ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ کم ہونے کی صورت میں تبدیلی کرتے ہوئے شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات بڑھانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ 2016 اور 2017 میں شمالی کوریا کی طرف سے میزائل اور جوہری تجربات کے بعد روس نے امریکہ کی طرف سے شمالی کوریا پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی حمایت کی تھی۔ تاہم روس اب ان پابندیوں میں نرمی کرنے کا حامی ہے۔ روس نے ان پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شمالی کوریا کو تیل فراہم کرنا شروع کر دیا ہے۔
اینٹنی رینا کا کہنا ہے کہ جنوبی کوریا میں امریکہ کی 28,000 نفری پر مشتمل فوج موجود ہے اور اس وجہ سے وہ جنوبی کوریا اور روس کے درمیان شمالی کوریا کو بفر ریاست کے طور پر بھی دیکھتا ہے۔
ویت نام کے شہر ہنوئی میں فروری میں ہونے والی سربراہ ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ کی کوشش تھی کہ امریکہ کی طرف سے اقتصادی پابندیاں اُٹھانے کے بدلے میں شمالی کوریا کے لیڈر سے جوہری ہتھیاروں کے مکمل خاتمے کا معاہدہ طے کر لیں۔ تاہم کم جونگ اُن نے اس کی بجائے جوہری تنصیبات کے سلسلہ وار خاتمے کی پیش کش کرتے ہوئے اقتصادی پابندیوں میں نرمی کے لیے ایک اہم جوہری کمپلیکس کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روسی صدر ولادی میر پوٹن کے ساتھ ملاقات کے ذریعے کم جونگ اُن شاید یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اُن کے پاس اقتصادی امداد کے لیے متبادل راستے بھی موجود ہیں۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ روس خود اقتصادی مشکلات کا شکار ہونے کی وجہ سے شمالی کوریا کو کس حد تک امداد فراہم کر سکتا ہے۔