امریکہ کے سابق صدر جان ایف کینیڈی کا قتل موجودہ تاریخ کی چند بڑی وارداتوں میں سے ایک ہے اور اس قتل سے جڑی پراسراریت آج لگ بھگ 40 برس بعد بھی برقرار ہے۔
صدر جان ایف کینیڈی کو22 نومبر 1963ء کو امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلاس میں گولی ماردی گئی تھی جہاں وہ آئندہ برس ہونے والے صدارتی انتخاب کے لیے اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں دورے پر تھے۔
صدر کینیڈی کی حفاظت پر اس روز مامور 'سیکرٹ سروس' کے اہلکاروں نے اس واردات کے بارے میں بہت کم اپنی زبان کھولی ہے ۔ لیکن حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والی ایک کتاب 'دی کینیڈی ڈیٹیل' میں 'سیکرٹ سروس' کے سابق اہلکار کلائنٹ ہِل نے اس روز پیش آنے والے واقعات اور ان کے اپنی زندگی پر پڑنے والے اثرات سے پردہ سرکایا ہے۔
کلائنٹ ہِل کہتے ہیں کہ صدر کینیڈی کی حفاظت کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہوا کرتا تھا کیوں کہ وہ عوامی مقامات پر اپنے اور عوام کے درمیان کسی تیسرے کی موجودگی گوارا نہیں کرتے تھے اور لوگوں میں گھل مل جایا کرتے تھے۔
کلائنٹ کا کہنا ہے کہ 22 نومبر 1963ء بھی عام دنوں جیسا ہی تھا اور اس روز صدر کینیڈی کے ٹیکساس کے دورے سے متعلق کچھ بھی غیر معمولی نہیں تھا سوائے اس کے کہ یہ ریاست بنیاد پرستوں کا گڑھ تصور کی جاتی تھی جہاں صدر کے لیے حمایت نسبتاً کم تھی۔
"اس حقیقت کے پیشِ نظر یہ امکان تھا کہ صدر کے دورے کے دوران وہاں کوئی مشکل صورتِ حال کھڑی ہوسکتی ہے لیکن اس بارے میں کوئی پیشگی اطلاع، انٹیلی جنس یا دھمکی موجود نہیں تھی کہ وہاں کوئی بڑا مسئلہ پیدا ہونے کا خدشہ ہے یا صدر کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے"۔
کلائنٹ اس دن کی یاد دہراتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ صدر کی 'لیموزین' کے پیچھے والی گاڑی میں بیٹھے تھے اور ان کا قافلہ ڈیلاس کے 'ڈیلے پلازا' کے نزدیک تھا جب انہوں نے اپنے دائیں جانب ایک دھماکہ سنا۔
"میں نے دیکھا کہ صدر نے اپنی گردن پر ہاتھ رکھا ہوا ہے اور وہ بائیں جانب گر رہے ہیں۔ مجھے احساس ہوا کہ کچھ گڑبڑ ہوگئی ہے۔ میں نے فوراً گاڑی سے چھلانگ لگائی اور صدر کی گاڑی کی جانب لپکا تاکہ ان کے سامنے ڈھال بن سکوں"۔
کلائنٹ کے بقول، "جب میں گاڑی کے نزدیک تھا تو اسی وقت تیسری گولی چلنے کی آواز آئی جو سیدھی صدر کینیڈی کے سر میں لگی۔ میں نے دیکھا کہ اس گولی کا زخم بہت گہرا تھا اور اس سے خون ابل رہا تھا اور ان کا بھیجا باہر آگیا تھا"۔
"خون کے چھینٹے اور گوشت کے ذرات گاڑی پر، مجھ پر اور خاتونِ اول مسز کینیڈی پر گرے۔ مسز کینیڈی صدر کے زخم پر ہاتھ رکھے خون روکنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ میں ان پر لپکا اور انہیں گھسیٹ کر دوبارہ ان کی سیٹ پر بٹھادیا۔ ان کے سیٹ پر بیٹھتے ہی صدر کینیڈی ان کے زانو پر آگرے۔ میں ان دونوں کے پیچھے آن کھڑا ہوا اور پیچھے آنے والی گاڑی کو دونوں انگھوٹے نیچے کرکے 'خیریت نہیں ہے' کا پیغام دیا"
قتل کی اس واردات کا دورانیہ بمشکل ایک منٹ تھا لیکن اس نے کلائنٹ کو تمام عمر کے لیے خوف زدہ کردیا۔
کلائنٹ کہتے ہیں کہ وہ شرمندگی اور احساسِ جرم کا شکار ہیں۔ ان کے بقول، "اس روز صرف میں ہی ایک ایسا ایجنٹ تھا جس کے پاس کچھ کرنے کی مہلت اور موقع تھا لیکن میں کچھ بھی نہ کرسکا"۔
صدر کینیڈی کے قتل نے پوری امریکی قوم کے ساتھ ساتھ صدر اور اعلیٰ حکومتی عہدیداران کی حفاظت کے ذمہ دار ادارے 'سیکرٹ سروس' کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔
کلائنٹ ہِل نے صدر کینیڈی کے علاوہ تین دیگر صدور کے حفاظتی دستوں میں بھی خدمات انجام دیں لیکن اس واقعے کے بعد ذہنی دبائو کے باعث انہیں 1975ء میں ریٹائرمنٹ لینا پڑی جس کے بعد انہوں نے خلوت اختیار کرلی۔
مصنفہ لیزا مک کبن نے 2009ء میں کلائنٹ ہِل سے انٹرویو دینے کی درخواست کی تاکہ ان کی یادداشتوں کو کتاب کی صورت میں ڈھالا جاسکے۔
لیزا کے بقول، "کلائنٹ نے 1975ء میں ٹی وی پروگرام '60 منٹ' کو ایک یادگار انٹرویو دیا تھا جس کے دوران ان کے اعصاب جواب دے گئے تھے اور وہ ذہنی دبائو کا شکار ہوگئے تھے۔ اس واقعے کے بعد کلائنٹ نے تنہائی اختیار کرلی اور عوامی مصروفیات تِج دیں"۔
لیکن اپنے دوست، 'سیکرٹ سروس' کے سابق ساتھی اور بعد میں مصنف کی حیثیت سے شناخت پانے والے جیرالڈ بلین کے اسرار پر کلائنٹ اور اس روز ڈیلاس میں صدر کی حفاظت پر مامور دوسرے اہلکاروں نے بالآخر اپنی روداد بیان کرنے پہ آمادگی ظاہر کردی تاکہ اس وادات کے ان سب کی زندگیوں پر پڑنے والے اثرات سے دنیا کو آگاہ کیا جاسکے۔
کلائنٹ ہِل کہتے ہیں کہ 'دی کینیڈی ڈیٹیل' کی گزشتہ برس ہونے والی اشاعت سے انہیں کچھ سکون ملا ہے۔
"اپنی تنہائی کو خیر باد کہہ کے لوگوں کو کتاب کے بارے میں بتانا اور ان کے ان بہت سے سوالوں کا جواب دینا جو اتنے برسوں بعد بھی تشنہ ہیں ایک ایسی سرگرمی ہے جس نے مجھے اس دن کے اثرات پر قابو پانے میں مدد دی ہے"۔
کلائنٹ سے ایک سوال تسلسل سے کیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ کیا اس دن صدر کینیڈی کو قتل کرنے والا ایک ہی شخص تھا یہاں وہاں ایک سے زائد قاتل موجود تھے۔
لیکن کلائنٹ صدر کینیڈی کے قتل کی تحقیقات کرنے والے 'وارن کمیشن' کی رپورٹ سے متفق ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ لی ہاروے آسوالڈ نے صدر کے قتل کی یہ واردات تنہا انجام دی تھی۔