پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں مختلف سیاسی اور مذہبی تنظیموں نے بھارتی کشمیر کے عوام سے اظہارِ یکجہتی کے لیے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کی طرف احتجاجی مارچ کیا ہے۔
جمعرات کو وکلا نے ایل او سی کی طرف احتجاجی مارچ کیا لیکن پولیس نے انہیں سرحدی قصبے چکوٹھی پہنچنے سے قبل ہی روک دیا۔
دارالحکومت مظفرآباد اور دیگر اضلاع سے آنے والے وکلا کو کنٹرول لائن سے دس کلومیٹر دور چناری قصبے کے قریب روکا گیا جس پر وکلا نے مزاحمت بھی کی تاہم پولیس نے انہیں آگے بڑھنے کی اجازت نہ دی۔
اس دوران ایک وکیل نے پولیس کی جانب سے لگائی گئی خاردار تار عبور کرنے کی کوشش کی جس سے وہ زخمی ہو گیا۔
وکلاء مارچ میں شامل مظفر آباد کے ایک وکیل وقار کاظمی نے کہا کہ کشمیر ناقابل تقسیم ہے جسے بھارت اور پاکستان آپس میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔
مارچ میں شامل ایک اور وکیل محمود بیگ نے بتایا کہ پاکستان اور بھارت دونوں کشمیر کو چھوڑ دیں، کشمیر کشمیریوں کا ہے اور وہی اس کا فیصلہ کریں گے۔
ضلع جہلم کے اسسٹنٹ کمشنر صارم اعوان نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ایل او سی پر صورتِ حال خطرناک ہے اور بھارت کی طرف سے فائرنگ کا خطرہ ہے۔
حکام کے مطابق جمعرات کو ضلع کوٹلی کے نکیال سیکٹر میں گولہ باری ہوئی اور پانڈو چکوٹھی سیکٹر میں بھی فائرنگ ہوئی۔
بھارت کی طرف سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے ایل او سی کی طرف مارچ بھی کیے جا رہے ہیں۔