نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس اتوار کو جنوبی شہر شوپیان کے ایک ڈگری کالج میں ایک خلافِ معمول ریلی کا اہتمام کررہی ہے جس میں تقریبا" چار سو نوجوانوں کو جن میں نصف کے قریب لڑکیاں ہیں مدعو کیا گیا ہے ۔ ریلی کے دوراں ماہرین کے ذریعے ان کی کیریئرکونسلنگ کی جائے گی۔ تقریب کی خاص بات یہ ہے کہ مدعوئین میں وہ درجنوں نوجوان بھی شامل ہیں جو گزشتہ چند برس باالخصوص معروف عسکری کمانڈر برہان وانی کی 8 جولائی 2016 کو بھارتی فوج کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد وادئ کشمیر میں پیدا ہوئے بحران کے دوراں پولیس اور دوسرے حفاظتی دستوں پر ہوئی سنگ باری کے واقعات میں ملوث پائے گئےتھے۔ ان نوجوانوں کا تعلق جنوبی کشمیر کے اضلاح شوپیان، کُلگام، اننت ناگ اور پُلوامہ سے ہے جو تقریبا" چھہ ماہ تک جاری رہنے والی بد امنی میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ تقریب گزشتہ جمعرات کو ہونے والی تھی لیکن عین اُسی دن شوپیان کے ایک علاقے میں مسلمان عسکریت پسندوں کی طرف سے گھات لگاکر کئے گئے ایک حملے میں بھارتی فوج کے تین سپاہی ہلاک اور دو افسروں سمیت پانچ دیگر فوجی شدید طور پر زخمی ہوئے تھے۔
ریلی کا انعقاد پولیس کی طرف سے شروع کی گئی اُس منفرد مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد عہدیداروں کے مطابق کشمیری نوجوانوں کو حفاظتی دستوں پر پتھراؤ کے مشغلے سے دورکرنا اور عسکریت پسندوں کی صفوں میں شامل ہونے سے بچانا ہے جو نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے پولیس سربراہ شیش پال وید کے نزدیک تباہی اور بربادی کا راستہ ہے۔
پولیس سربراہ کا کہنا تھا کہ مجوزہ ریلی میں تقریبا" اڑھائی سو ایسے نوجوانوں کی شرکت متوقع ہے جو سنگباری کے واقعات میں ملوث رہے ہیں بلکہ ایسا کرنا ان کی عادت بن گئی ہے۔
شوپیان کے سینئر سُپرانٹنڈنٹ پولیس طاہر سلیم نے بتایا کہ عادی سنگبازوں سمیت چار سو نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی کیریئر کونسلنگ کے لیے بھارت کے دو ماہرین اور پرائم منسٹر ڈیولپمنٹ فیلوز سدا شیو نیان پلے اور انیکیت چوہدری اور کشمیر ایڈمنسٹریٹیو سروسز کے افسروں شعیب نور اور ڈاکٹر سلمہ نبی کی خدمات حاصل کرلی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "ہم ان بچوں کو اپنے آپ اور باعمل دنیا کو جاننے اور سمجھنے میں ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ موجودہ طرزِ زندگی بدل کر اپنا کیریئر بناسکیں اور تعلیم اور زندگی کے بارے میں کچھ اچھے فیصلے لے سکیں"۔
تاہم سنگباری کی سرگرمی میں شامل کشمیری نوجوانوں اور بھارت سے آزادی کا مطالبہ کرنے والی سیاسی جماعتوں نے اسے اُن کے اپنے انتفادہ کا نام دیا ہے ۔ ان کا اصرار ہے کہ وہ وہی کچھ کر رہے ہیں جو فلسطین کے نوجوان مقبوضہ علاقوں میں کرتے چلے آئے ہیں اور دونوں کی تحریک میں کئی مماثلتیں موجود ہیں۔
لیکن پولیس سربراہ وید کا کہنا ہے کہ ان کشمیری نوجوانوں کو سرحد پار یعنی پاکستان سے شہہ مل رہی ہے۔ انہوں نے ان نوجوانوں کو گمراہ شدہ قرار دیدیا لیکن اس کے ساتھ ہی اس یقین کا اظہار کیا کہ وہ عنقریب قومی دھارے میں لوٹ آئیں گے۔
بھارتی کشمیر کی پولیس نے کچھ عرصہ پہلے اسلامی تعلیمات کا حوالہ دیتے ہوئے علماء اور مساجد کے ذریعے سڑکوں پر آئے دن پیش آنے والے سنگباری کے واقعات پر قابو پانے کی کوشش کی تھی۔ اگرچہ اس میں اسے کامیابی کی اُمید نظر آرہی تھی، برہان وانی کی ہلاکت نے ان کی اس سعی پر پانی پھیر دیا اور پہلے کے مقابلے میں زمینی صورتِ حال میں شدت آگئی۔ باغی نوجوانوں کے خلاف سخت گیر اقدامات بھی انہیں رام کرنے میں ناکام ہوگئے۔ یہاں تک کہ اسی سے زائد شہری جن میں اکژیت نوجوانوں کی تھی، حفاظتی دستوں کی فائرنگ سے ہلاکت ہوئے اور درجنوں پیلٹ گن کے استعمال کے باعث بینائی سے محروم ہو گئے لیکن یہ تشدد بھی باغیوں کوعبرت دلانے میں ناکام رہا۔
اب پولیس انہیں سنگبازی سے باز رکھنے کے لئے کیرئیر کونسلنگ کے ساتھ ساتھ انہیں چھوٹے موٹے کاروبار شروع کرنے میں معاونت کی پیشکش کررہی ہے اور جسمانی طور پر مضبوط عادی سنگبازوں کو پولیس اور دوسری فورسز میں بھرتی ہونے کے لئے ان کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔
تاہم یہ اقدامات ایک ایسے موقعے پر اُٹھائے جارہے ہیں جب نئی دہلی سے اطلاعات مظہر ہیں کہ وزارتِ داخلہ نے کشمیر میں تعینات وفاقی پولیس فورس سی آر پی ایف کو مظاہرین اور سنگبازوں سے نمٹنے کے لئے مزید پانچ ہزار پیلٹ شارٹ گن اور ان کے لئے لاکھوں کی تعداد میں پیلٹ یا چھرے خریدنے کی منظوری دیدی ہے۔ حزبِ اختلاف کی جماعت نیشنل کانفرنس، استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی تنظیموں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس پر شدید ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیر میں جاری تحریکِ مزاہمت اور نوجوانوں میں پائی جانے والی بد دِلی کو طاقت کے ذریعے دبانے پر تُلی ہوئی ہے۔