بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں منگل کے روز 1931ء میں ہندو مہا راجہ کی فوج کے ہاتھوں 21 افراد کی ہلاکت کی یاد میں ”یوم شہداء“ منایا جا رہا اور وادی میں بھارت مخالف اور علیحدگی کے حق میں مظاہروں کو روکنے کے لیے ہزاروں کی تعدد میں پولیس اور نیم فوجی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔
سری نگر سمیت وادی کے مختلف اضلاع میں سکیورٹی فورسز نے گشت میں اضافہ کر رکھا ہے جب کہ کئی مقامات پر رکاوٹیں کھڑی کر کے اور زمین پر خاردار تاریں بچھا کر سڑکوں کو بند کر دیا گیا ہے ۔ یوم شہداء کے سلسلے میں پہلے ہی وادی بھر میں ہڑتال کی جا رہی ہے۔
اطلاعات کے مطابق علیحدگی پسند اتحاد ”حریت کانفرنس“ کے رہنما میر واعظ عمر فاروق کو اْن کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے یادگارِ شہداء سے اقوام متحدہ کے بھارت اور پاکستان کے لیے فوجی مندوبین کے گروپ ”یو این ایم او جی آئی پی“ کے دفاتر تک نکالے جانے والے ایک احتجاجی جلوس کی قیادت کرنا تھی۔
اْدھر بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبدالله نے سخت سکیورٹی کی موجودگی میں منگل کی صبح شہداء کے مزارپر حاضری دی اور قبروں پر پھول چڑھائے۔
ہر سال 13 جولائی بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ساتھ ساتھ اْن تمام علاقوں میں جہاں کشمیری آباد ہیں یوم شہداء کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 89 برس قبل اِسی روز ہوئی کشمیریوں کی ہلاکت کے بعد آزادی کی تحریک کا آغاز ہوا تھا۔
واضح رہے کے گذشتہ تین ہفتوں کے دوران بھارتی کشمیر میں احتجاجی مظاہروں میں مبینہ طور پر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے شہریوں کی ہلاکت کے باعث وادی میں حالات کشیدہ ہیں اور ہنگاموں کو روکنے کے لیے متعدد علاقوں میں وقتاً فوقتاً کرفیو کا نفاذ کیا جاتا رہا ہے۔ سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں اور تشدد کے واقعات میں اب تک کم از کم 18 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔