بھارتی کشمیر میں گذشتہ تین ماہ سےجاری شورش نے اتوارکی شام اُس وقت ایک نیا رُخ اختیار کرلیا جب ذرائع ِ ابلاغ کے ایک حصے نے، جس میں سرکاری تحویل میں کام کرنےوالاایک ایرانی ٹیلی ویژن چینل بھی شامل ہے، یہ خبر دی کہ بعض قدامت پسند عیسائیوں نےواشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر قرآن مجید کےایک نسخے کےاوراق پھاڑ ڈالے ہیں۔
اگرچہ مقامی پولیس کے اعلیٰ عہدے داروں نے فوری طور پر ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے ذریعےلوگوں کوباخبر کرنے کی کوشش کی کہ امریکہ کے ایک پادری نے قرآن مجیدکو نذرِ آتش کرنے کے اپنے ارادے کو ہمیشہ کےلیے منسوخ کردیا ہے اور وائٹ ہاؤس کے باہر مقدس کتاب کی بے حرمتی کے بارے میں اطلاع کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے، ہزاروں مرد و زن نے سڑکوں کا رُخ کیا اور کرفیو توڑ کر احتجاجی مظاہرے کیے۔
یہ سلسلہ رات بھر جاری رہا اور پیر کو اُس میں مزید شدت آگئی جب کہ کئی مقامات پرمظاہرین تشدد پر اُتر آئے اور جب پولیس اور نیم فوجی دستوں نے اُنھیں روکنے کی کوشش کی تو مظاہرین نے اُن پر پتھراؤ کیا۔
سری نگر سے تقریباً 50کلومیٹر دور واقع تنگ مرگ کے مقام پر کئی سرکاری عمارتوں اور گاڑیوں کو نذرِ آتش کردیا گیا۔ اِن عمارتوں میں ایک عیسائی تنظیم کی سرپرستی میںچلایا جانےوالا ایک اسکول بھی شامل ہے۔
پولیس اور نیم فوجی دستوں نے پھر گولی چلادی جس میں پانچ افراد ہلاک ہوگئے ۔ چرار شریف ، پانپور اور ہمھما کے مقامات پر بھی حفاظتی دستوں نے گولی چلادی، مزید چھ افراد ہلاک اور بیسیوں زخمی ہوگئے۔ مشتعل ہجوم نےایک پولیس والے کو مار مار کر ہلاک کر ڈالا۔
اِسی دوران، سید علی شاہ گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور آغا سعید حسن نے لوگوں سے پُر امن رہنے کی اپیل کی ہے۔
سید گیلانی نے کہا کہ قرآن مسلمانوں کے دلوں میں محفوظ ہے اس لیے کسی کی طرف سے اس کی بےحرمتی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
میر واعظ عمر اور آغا سعید حسن نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ قرآن مجید کی بے حرمتی کا یہ واقع افسوس ناک اور شرمناک ضرور ہے لیکن کشمیری مسلمانوں کو اس پر احتجاج کرتے ہوئے توڑ پھوڑ ، تعلیمی اداروں اور عوامی جائیداد کو ہدف بنانے سے گریز کرنا چاہیئے تاکہ اُن کی پُر امن جدوجہدِ آزادی پر آنچ نہ آنے پائے۔
مقبول ترین
1