بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے وادی میں سرگرم مُسلمان عسکریت پسندوں کو بالواسطہ دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے پولیس والوں کے اہلِ خانہ کو گزند پہنچانے کی کوشش کی تو اُن کے خاندانوں کو بھی ہدف بنایا جاسکتا ہے۔
بھارت کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس شیش پال وید نے بدھ کو وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گھر والوں کو، چاہے وہ عسکریت پسندوں کے ہوں یا پولیس والوں کے، تنازع سے دور رکھا جانا چاہیے کیوں کہ اُن کا طرفین کے درمیان جاری لڑائی سے کوئی تعلق نہیں۔
پولیس سربراہ نے یہ بیان وادی کے جنوبی ضلعے شوپیان کے ایک دور دراز گاؤں میں عسکریت پسندوں کی طرف سے ایک پولیس افسر کے اہلِ خانہ کو مُبینہ طور پر ہراساں کرنے اور گھر میں توڑ پھوڑ کرنے کے ایک واقعے کے پس منظر میں دیا ہے۔
پولیس کے مطابق ہفتے کو پیش آنے والے اس واقعے کے دوران چار عسکریت پسندوں نے وادی کے دارالحکومت سرینگر میں تعینات ایک پولیس افسر کے آبائی گھر میں زبردستی گھس کر توڑ پھوڑ کی تھی۔
عسکریت پسندوں نے گھر میں موجود افراد سے مبینہ طور پر کہا تھا کہ اگر پولیس والے اور دیگر فورسز کے اہلکار لوگوں کے گھروں میں توڑ پھوڑ کر نا بند نہیں کرتے ہیں تو وہ اُن کے گھروں کو بھی اسی طرح ہدف بنائیں گے۔
عسکریت پسندوں نے اہلِ خانہ کو یہ دھمکی بھی دی اگر پولیس افسر نے نوکری نہیں چھوڑ ی تو اُسے نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہنا چاہیے۔
اس واقعے سے چند گھنٹے قبل عسکریت پسندوں کا ایک گروہ علاقے میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے شروع کیے گئے ایک آپریشن کے دوران اُنہیں چکمہ دے کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
کارروائی کے دوران علاقے میں عسکریت پسندوں کے حق میں مقامی افراد نے مظاہرے کیے تھے جس کے بعد سکیورٹی دستوں نے مُبینہ طور پر کئی گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی تھی۔
اپنی گفتگو میں ڈی جی پولیس شیش پال وید نے عسکریت پسندوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ان کے بھی گھر اور خاندان ہیں اور انہیں اس بیان کو انتباہ سمجھنا چاہیے۔
پولیس سربراہ نے اپنا یہ موقف دہرایا کہ یہ لڑائی عسکریت پسندوں اور پولیس کے درمیان ہے اور دونوں فریقوں کے اہلِ خانہ کو اس میں نہیں گھسیٹنا جانا چاہیے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ اگر پولیس والے ایسا کرنے لگیں تو عسکریت پسندوں کے خاندانوں کے ساتھ کیا ہوگا؟
نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھارت سے آزادی کی غرض سے گزشتہ 27 برس سے جاری مسلح تحریک کے دوران اب تک ہزاروں پولیس اور دوسری سکیورٹی فورسز کے اہلکار عسکریت پسندوں کے حملوں اور دوسری پُرتشدد کارروائیوں میں ہلاک ہوچکے ہیں۔
اس عرصے کے دوران پولیس اہلکاروں اور افسروں کو عسکریت پسندوں کی جانب سے دھمکیاں بھی ملتی رہی ہیں لیکن عسکریت پسندوں کی جانب سے کسی پولیس افسر کے گھر میں گھس کر اُس کے اہلِ خانہ کو ہراساں کرنے کا واقعہ پہلی بار پیش آیا ہے۔