رسائی کے لنکس

بھارت کشمیر میں کیے گئے اقدامات فوری واپس لے، ہیومن رائٹس واچ


سری نگر میں کشمیری خواتین عید الاضحیٰ کی نماز کی ادائیگی سے قبل آزادی کے حق میں نعرے لگا رہی ہیں۔ 12 اگست 2019
سری نگر میں کشمیری خواتین عید الاضحیٰ کی نماز کی ادائیگی سے قبل آزادی کے حق میں نعرے لگا رہی ہیں۔ 12 اگست 2019

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھارت پر زور دیا ہے کہ کشمیر میں کیے گئے اقدامات فوری طور پر واپس لیے جائیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق، بھارت کی جانب سے کشمیر کی خودمختاری ختم کرنے کے بعد سے اب تک کشمیری لاک ڈاؤن کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

دوسری جانب حکومتی اتحادی جماعت کے ترجمان نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی اطلاعات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر میں حالات بہتر ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔

ہیومن رائٹس واچ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے کشمیر کی خود مختاری ختم کر کے اسے دو حصوں میں تقسیم کیے جانے کے بعد سے کشمیری عوام کو گھروں میں بند کر دیا گیا ہے اور کشمیری قیادت بھی نظر بند ہے۔

بیان کے مطابق، علاقے میں انٹرنیٹ، ٹیلی فون بند ہیں اور عید پر کشمیری مسلمانوں کے لیے مساجد بھی بند رہیں اور ان حالات میں لوگوں کے اپنے اہل خانہ سے رابطے نہیں ہو رہے ہیں جب کہ طبی سہولیات بھی ناکافی ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق، بعض صحافیوں نے وادی میں بڑے پیمانے پر جھڑپوں اور مظاہروں کی رپورٹ دی ہے۔ لیکن، حکومت نے اس کی تردید کی ہے۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق، کشمیر میں سرگرم کارکنوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ عوام کو دبانے کی بجائے بھارتی حکام کو انصاف سے کام لیتے ہوئے نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کا احتساب کرنا چاہیے بلکہ انسانیت مخالف قوانین کو ختم کرنا چاہیے۔

بی جے پی کی اتحاد جماعت کے رہنما اور ترجمان اجے کمار نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق پر تماشا کچھ عناصر کی سازش ہے، جو ناکام ہو گی۔

اجے کمار کے مطابق، کشمیر میں حالات بہتر ہونے میں کچھ وقت لگے اور ایسے میں انہوں نے عوام سے پر امن رہنے کی اپیل کی ہے۔

’’انسانی حقوق کے خلاف نہیں ہیں۔ لیکن کشمیر میں موجودہ حالات کو نارمل ہونے میں تھوڑا وقت لگے گا۔‘‘

بھارت نے کشمیر کی خودمختار حثیت کو ختم کرنے سے قبل وہاں بڑی تعداد میں فوج تعنیات کر دی تھی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے کشیمر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد عوام سے خطاب میں وادی میں عائد پابندیوں کا ذکر کیا تھا اور اس اقدام پر تنقید کرنے والوں سے کہا تھا کہ یہ فیصلہ ملک کے بہترین مفاد میں کیا گیا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کے بیان کے مطابق، کشمیر کی ملکیت پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع 1947 سے چلا آ رہا ہے اور کشمیر میں پاکستان کی حمایت سے جاری تحریکِ آزادی میں اب تک 50 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ حکام کو چاہیے کہ کشمیری قیادت کو رہا کرے۔ مواصلات پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں اور مبصرین اور صحافیوں کو وہاں رسائی دی جائے اور سیکورٹی حکام کو انسانی حقوق کا احترام کرنے کی ہدایت دی جائے۔

  • 16x9 Image

    سارہ حسن

    سارہ حسن ملٹی میڈیا صحافی ہیں اور ان دنوں وائس آف امریکہ اردو کے لئے اسلام آباد سے ان پٹ ایڈیٹر اور کنٹری کوآرڈینیٹر پاکستان کے طور پر کام کر رہی ہیں۔

XS
SM
MD
LG