نیشنل کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبد اللہ نے یہ بیان دے کر کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پاکستان کا ہے اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر بھارت کا ہے، ایک تنازعہ پیدا کر دیا۔ انھوں نے ہفتے کے روز سری نگر میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ یہ صورت حال بدل نہیں سکتی خواہ بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے خلاف کتنی ہی جنگیں کیوں نہ لڑ لیں۔
ایک سرکردہ بالی ووڈ اداکار رشی کپور نے اس بیان کی حمایت کرکے اس تنازعہ کو مزید ہوا دے دی ہے۔ ٹویٹر پر دیے گئے ان کے بیان سرخیوں میں رہتے ہیں۔ انھوں نے اتوار کے روز ٹویٹ کرکے کہا کہ یہ تسلیم کر لینا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پاکستان کا ہے، مسئلہ کشمیر کا واحد حل ہے۔
انھوں نے فاروق عبد اللہ کو سلام کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ سے پوری طرح متفق ہوں۔ جموں و کشمیر ہمارا ہے اور وہ کشمیر ان کا ہے۔ مسئلہ کشمیر کا یہی واحد حل ہے۔
رشی کپور نے یہ بھی کہا کہ میں 65 سال کا ہو گیا ہوں۔ میں اپنی موت سے قبل ایک بار پاکستان دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے بچے اپنی جڑوں کا دیدار کریں۔
خیال رہے کہ پشاور میں رشی کپور کا ایک آبائی مکان ہے جسے ان کے پردادا یعنی پرتھوی راج کپور کے والد دیوان بشیشور ناتھ کپور نے 1918 سے 1922 کے درمیان تعمیر کروایا تھا۔ پرتھوی راج کپور فلمی دنیا میں جانے والے اس خاندان کے پہلے شخص ہیں۔ کپور خاندان 1947 میں بھارت منتقل ہو گیا تھا۔
فاروق عبد اللہ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ سرحدوں کو تبدیل کیے بغیر دونوں کشمیر کو خود مختاری دینا مسئلہ کشمیر کا ممکنہ حل ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر بھارتی حکومت امن کی خواستگار ہے تو اسے پاکستان سے بات کرنی ہوگی۔
فاروق عبد اللہ کے بیان پر شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے مرکزی وزیر جتیندر سنگھ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس نے 40 سال قبل اس وقت خود مختاری کے مطالبے کو ترک کر دیا تھا جب شیخ عبد اللہ کو وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز کیا گیا تھا اور انھوں نے بھارتی آئین کی تمام دفعات تسلیم کی تھیں۔
بعض نیوز چینلوں پر فاروق عبد اللہ کے بیان پر مباحثے ہو رہے ہیں جن میں تجزیہ کار ان سے اختلاف کرتے نظر آرہے ہیں۔
خیال رہے کہ بھارت پورے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ مانتا ہے اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو بھی واپس لینے کی بات کرتا ہے۔
جبکہ پاکستان کشمیر کو متنازعہ علاقہ مانتا ہے اور استصواب رائے کرانے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کو حل کرنے پر زور دیتا ہے۔