محمد ثاقب
یہ دس سال پہلے کا واقعہ ہے۔ پاکستان کی دو مرتبہ وزیر أعظم بننے والی محترمه بے نظیر بھٹو سات سال کی خودساختہ جلا وطنی ختم کرکے پاکستان آرہی تھیں۔
ٹی وی کوریج کے لئے ہمیں صبح سے ہی پہنچنے کو کہا گیا تھا۔ ابھی محترمه کی پرواز پہنچنے میں کئی گھنٹے باقی ہی تھے لیکن لوگوں کا جم غفير صبح ہی سے کراچی ایئرپورٹ پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔
ان کے چہروں پر خوشی دیدنی تھی. پارٹی نغموں پر رقص کرتے، جھومتے لوگوں میں عمر کی کوئی قید تھی اور نہ ہی جنس کی، سبھی کو محترمه کا انتظار اور ان کے پرتپاک استقبال کے لئے بےتاب تھے۔
محترمه بے نظیر بھٹو نے ایئرپورٹ سے ریلی کی شکل میں مزار قائد پہنچنا تھا جہاں باغ جناح میں شام کو جلسہ طے تھا۔ لیکن کارکنوں کی بڑی تعداد کے باعث قافلہ سست روی کا شکار رہا اور رات گئے تک بھی قریباً آدھا راستہ ہی گذر پایا تھا۔
ابھی محترمه بے نظیر بھٹو کا ٹرک جو قافلے کے شروع میں تھا، کار ساز سے گذر ہی رہا تھا کہ یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے، جس میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 119 افراد جاں بحق اور 353 زخمی ہو گئے۔ دھماکوں میں محترمه بے نظیر بھٹو اور ٹرک پر بیٹھی ہوئی پی پی پی کی دیگر قیادت بال بال بچ گئی۔
پولیس کی جانب سے سرکار کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کی گئی اور تحقیقات شروع کردی گئی۔ لیکن بے نظیر بھٹو نے اس وقت کی حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی اور موقف اختیار کیا کہ ایف آئی آر ورثاء کی مدعیت میں درج کرنے کا حکم دیا جائے۔
عدالتی حکم پر واقعے کی نئی ایف آر درج کی گئی اور پہلی ایف آئی آر کو داخل دفتر کردیا گیا۔
سانحے سے ہونے والے بڑے جانی نقصان پر ٹریبونل تشکیل دیا گیا۔ جسٹس ریٹائرڈ غوث محمد کی سربراہی میں کمشن نے گواہوں کے بیانات ریکارڈ کئے لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت نے کمشن کو جانبدار قرارد دیتے ہوئے بائیکاٹ کردیا اور عام انتخابات میں برسر اقتدار آنے کے بعد کمشن کو ختم کردیا۔
سانحه کار ساز کو دس سال کا عرصہ گذر جانے کے باوجود بھی پولیس اس اندوہناک سانحے کے قاتلوں کا سراغ لگانے میں ناکام ہے۔
سانحے کے پہلے تفتیشی أفسر ڈی ایس پی نواز رانجھا کو قتل کردیا گیا جس کے بعد پولیس آفیسر نیاز کھوسو کے پاس تفتیش منتقل ہوئی لیکن قاتلوں کی گرفتاری میں ایک انچ بھی پیش رفت نہ ہو سکی۔
اب تک کی تحقیقات میں پولیس کو یہی معلوم ہو سکا ہے کہ دونوں دھماکے خودکش تھے جو سیاسی مقاصد کے لئے کئے گئے۔ لیکن تفتیش ان "سیاسی مقاصد" سے پردہ ہٹانے، خودکش بمباروں اور ان کے سہولت کاروں تک پہنچنے میں ناکام رہی۔ بعض مشتبہ افراد سے تفتیش ضرور کی گئی لیکن سب بے سود رہا اور انہیں رہا کر دیا گیا۔
اگرچہ بے نظیر بھٹو نے طالبان راہنما حکیم اللہ محسود، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی، سابق آئی ایس آئی چیف حمید گُل اور سابق ڈی جی انٹیلی جینس بیورو اعجاز شاہ سے اپنی جان کو خطرہ ظاہر کیا تھا لیکن ان تمام افراد سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کبھی پوچھ گچھ نہیں کی۔ بعد میں حکیم اللہ محسود امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا۔
پیپلز پارٹی کے راہنما سعید غنی قاتلوں کی عدم گرفتاری کو بدنصیبی قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کیس شروع ہی میں خراب کردیا گیا جس کے بعد اسے حل کرنا اور بھی مشکل ہوگیا۔ سعید غنی اس کا ذمہ دار اُس وقت صوبے میں برسر اقتدار ارباب غلام رحیم کی حکومت اور وفاقی حکومت کو قراردینے ہیں۔
سیاسی پنڈتوں کے مطابق وجہ سیاسی مصلحت ہو یا تفتیشی اداروں کا فرسودہ نظامِ تفتیش، اتنے بڑے کیس میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہ ہونے پر پیپلز پارٹی قیادت کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
سوال تو یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو نے خود جنہیں اپنی جان کے لئے خطرہ قرار دیا ان سے کوئی تفتیش ہوئی یا نہیں؟ کیا پولیس کی استعداد کار میں کوئی بہتری لائی گئی؟ کیا تفتیش کے فرسودہ نظام میں اس سانحے کے بعد کوئی مثبت تبدیلی لائی گئی؟ اگر ٹربیونل کی تشکیل جانبدارانہ ہی تھی تو کوئی غیر جانبدار کمشن کیوں نہ بنایا گیا؟ دس سال بعد بھی بہت کچھ اسی طرح ہے جیسا پہلے تھا۔
وفاقی حکومت میں پانچ سال اور صوبے میں بلا شرکت غیرے 9 سال مسلسل برسراقتدار رہنے پر بھی قاتلوں اور اُن کے سہولت کاروں تک عدم رسائی کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ یہی نہیں بلکہ ہلاک اور زخمی ہونے والے تمام افراد کے اہل خانہ سے کئے گئے مالی امداد کے وعدے نہ نبھانے کی بھی شکایات موجود ہیں۔
ہرسال کی طرح اس سال بھی پارٹی نے سانحے میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں شمعیں بھی روشن کیں اور جلسے کا بھی اہتمام کیا لیکن ناقدین اسے رسمی اور اپنے مخالفین کو للکارنے کے موقع سے زیادہ تصور نہیں کرتے۔