|
عید کے روز گھر پر مہمانوں کا تانتا بندھا ہوا تھا اور تراب بھی مہمانوں کی آؤ بھگت میں مصروف تھا۔ کسی کو بتائے بغیر ہی وہ قریب مارکیٹ سے کچھ سامان لینے کی غرض سے فلیٹ سے نیچے آیا اور چند منٹ بعد بھی پڑوسی خاتون دوڑتی ہوئی آئیں اور بتایا کہ تراب کو کسی نے گولی مار دی ہے۔ آناً فاناً اس خبر نے ہنستے بستے گھر کو ماتم کدہ میں تبدیل کردیا۔
اہلِ خانہ نے پولیس کو بتایا کہ تراب اپنے دوست کے ساتھ گھر کے قریب اے ٹی ایم مشین سے پیسے نکلوانے گیا تھا۔ پیسے لے کر وہ باہر نکلے تو ڈکیتوں نے انہیں گھیر لیا۔ اہلِ خانہ کے مطابق تراب کے دوست نے ڈکیتوں کو پرس اور موبائل فون تھمادیے لیکن تراب نے مزاحمت کی جس پر ڈکیتوں نے اسے سر پر گولی مار دی۔
سینتیس سالہ تراب کو فوری طور پر عباسی شہید اسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکا۔
مقتول تراب ایک پرائیوٹ کمپنی میں ملازم تھا جس کے تین بچے ہیں جن میں سب سے چھوٹا چھ ماہ کا ہے۔ مقتول اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا اور تین بہنوں کا بھائی تھا۔
پاکستان کے معاشی حب کراچی میں چھینا جھپٹی اور ڈکیتی مزاحمت پر قتل کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ رواں برس کے تین ماہ کے دوران کم از کم 55 افراد ڈاکوؤں کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں۔
سٹیزن پولیس لیژن کمیٹی کی جانب سے جاری کردہ ڈیٹا کے مطابق ڈکیتیوں کے دوران شہریوں کے قتل کے واقعات میں گزشتہ تین سال کے دوران تیزی دیکھی گئی ہے۔
گزشتہ برس 126 افراد جب کہ سال 2022 میں 111 افراد ڈکیتی مزاحمت پر قتل ہوئے تھے۔
سرکاری ڈیٹا یہ بھی بتاتا ہے کہ سب سے زیادہ وارداتیں کراچی کے سات میں سے چار اضلاع میں ہوئیں جن میں ضلع وسطی سرِفہرست ہے جس کے بعد ضلع غربی، شرقی اور کورنگی میں بھی کئی واقعات ہوئے ہیں۔
ڈکیتیوں پر شہریوں کے قتل کے واقعات کے علاوہ بھی شہر میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتیں عام ہیں۔ اگر صرف جنوری سے مارچ تک کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو شہر میں تین ماہ کے دوران 72 گاڑیاں چھیننے کی وارداتیں رپورٹ ہوئیں جب کہ 442 گاڑیاں چوری ہوئیں۔ ان میں سے صرف 106 گاڑیاں ریکور ہوپائی ہیں۔
کراچی میں رواں سال کے ابتدائی تین ماہ میں 2747 موٹر سائیکلیں چھینی گئیں اور 12 ہزار سے زائد موٹر سائیکلیں چوری کی گئیں۔ ان میں سے صرف 614 ریکور ہوپائیں۔
یہی نہیں بلکہ صرف تین ماہ میں 6 ہزار سے زائد موبائل فونز شہریوں سے چھینے گئے۔ جب کہ پولیس شہریوں کو 50 فون واپس دلوانے میں کامیاب رہی۔
شہر میں جرائم کی وارداتوں پر نظر رکھنے والے صحافی اور خود اعلیٰ حکام بھی اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ بیشتر جرائم کی وارداتیں ایسی ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوتیں۔ اس طرح سرکاری ڈیٹا شہر میں ہونے والے جرائم کے گراف کی صحیح طور پر عکاسی نہیں کرتا۔
'لوگ اب تنگ آچکے ہیں'
سٹیزن پولیس لیژن کمیٹی کے سابق سربراہ جمیل یوسف کا کہنا ہے کہ کراچی میں ہر تیسرا شہری اسٹریٹ کرائم کا شکار ہو چکا ہے لیکن اب شہری تنگ آچکے ہیں اور انہوں نے مزاحمت شروع کر دی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شہر میں ہتھیاروں کی فراوانی ہے جب کہ لوٹ مار کرنے والوں میں اکثر منشیات کے عادی ہیں۔ ایسے میں نتیجہ شہریوں کو زخمی کرنے اور ان کی ہلاکتوں کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔
ان کے بقول، شہریوں کو اس بات پر کوئی اعتماد نہین رہا کہ مجرموں کے خلاف پولیس ایک مضبوط کیس تیار کر کے عدالت سے سزا دلا پائے گی۔ جب کہ عدالتی نظام میں پائے جانے والے سقم اس کے علاوہ ہیں۔
سابق ایس ایس پی کرائم برانچ آصف رزاق کے مطابق اسٹریٹ کرائمز کی وارداتیں بڑھنے کی کئی وجوہات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس نفری کی کمی اہم پہلو ہے جب کہ پولیس حکام کو اس بارے میں کوئی سائنٹیفک ڈیٹا دستیاب نہیں کہ شہر میں اس وقت کون کون سی کمیونٹی کے لوگ کتنی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ اس سلسلے میں شہر کی صحیح آؓبادی کا تعین، یہاں رہنے والوں کی قومیتیں اور دیگر کوائف ہونا بہت ضروری ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ نہ صرف ملک بھر سے بلکہ دنیا کے کئی ممالک سے یہاں بڑی تعداد میں لوگ آباد ہیں۔ ان میں سے بیشتر یہاں روزگار کی تلاش میں آتے ہیں لیکن اس وقت جو معیشت کے عمومی حالات ہیں ان میں کراچی میں معاشی سرگرمیوں میں کمی واقع ہوئی ہے اور یوں روزگار کے مواقع بھی کم ہوگئے ہیں۔
آصف رزاق کے مطابق "جب ملازمتوں کے مواقع کم ہوجائیں، مہنگائی بڑھ جائے اور ضروریات بھی بڑھ جائیں تو ظاہر ہے کہ معاشرے میں جرائم کی شرح بڑھے گی۔"
انہوں نے بتایا کہ اسٹریٹ کرائمز کی واردتوں میں ملوث ملزمان عدالتوں سے ضمانتیں حاصل کرنے کے بعد دوبارہ انہی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے رہے ہیں جب کہ بعض مقدمات میں ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ اصل ملزمان گرفتار ہوگئے لیکن مطلوبہ شواہد پیش نہ کرنے کے باعث وہ عدالتوں سے بری ہوگئے۔
سابق ایس ایس پی کے مطابق جب محکمۂ پولیس کو آپریشن اور انویسٹی گیشن کے شعبوں میں تقسیم کیا گیا تو اس وقت انویسٹی گیشن کے شعبوں میں ایسے ماتحت ملازمین کو تعینات کیا گیا جو نالائق ترین تھے اور ان سے تفتیش کا کام لینا مشکل تھا۔ ایسے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تفتیش کا کیا معیار ہوگا۔
ٹیکنالوجی کے استعمال کے بغیر اسٹریٹ کرائمز پر قابو پانا ناممکن
کئی ماہرین کا خیال ہے کہ بڑھتی آبادی کے پیشِ نظر شہر میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے بغیر اسٹریٹ کرائمز پر قابو پانا ناممکن ہے۔
سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں شہر میں جرائم کی روک تھام کے لیے 2016 میں 'کراچی سیف سٹی' کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ لیکن آٹھ سال گزرنے کے بعد بھی اس منصوبے کے تحت آزمائشی بنیادوں پر صرف ایک ہی مقام پر کیمرے نصب ہوئے ہیں اور اب تک یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوسکا ہے۔
حکومتی ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تین سال قبل ہونے والے اجلاس میں کراچی سیف سٹی منصوبے کے لیے 38 ارب روپے رکھے گئے تھے اور شہر میں کیمروں کی تنصیب کے لیے فوج کی زیلی نیشنل ریڈیو ٹیلی کمیونی کیشن کارپوریشن کو ٹھیکہ دیا گیا تھا۔ لیکن اس کی لاگت پر نظر ثانی کرکے منصوبے کا اسکوپ کم کیا گیا اور رقم کا تخمینہ 22 ارب روپے لگایا گیا۔ تاہم اب بھی اس پر کام کا آغاز نہیں ہوا ہے جب کہ منصوبے کی لاگت مسلسل بڑھ رہی ہے۔
وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن کا کہنا ہے کہ حکومت نے رواں سال کے بجٹ میں پانچ ارب روپے کی رقم جاری کردی ہے اور حکومت اس منصوبے کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنا چاہتی ہے۔
شرجیل میمن کے مطابق بدقسمتی سے اسٹریٹ کرائم کا سلسلہ پورے ملک میں بڑھا ہے جب کہ کراچی ایک بڑا شہر ہے جس میں غیر قانونی تارکینِ وطن بھی بڑا مسئلہ ہیں اور بیشتر واقعات میں غیر قانونی تارکین وطن ملوث پائے گئے ہیں۔
صوبائی وزیرِ اطلاعات کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ اسٹریٹ کرائمز کی روک تھام کے معاملے پر سندھ حکومت کو وفاق کی مدد کی ضرورت ہے۔
صوبائی وزیرِ اطلاعات کے بیانات کے برعکس اس معاملے پر نظر رکھنے والے ماہرین اور مبصرین کا خیال ہے کہ کراچی میں دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے جس طرح 2013 میں صوبائی و وفاقی حکومت اور فوجی قیادت نے ایک مربوط حکمتِ عملی مرتب کے تحت ٹارگٹڈ آپریشن کیے تھے۔ اسی طرح اسٹریٹ کرائم کے خلاف بھی حکمت عملی بنانا ہوگی۔
فورم