رسائی کے لنکس

پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو کشیدگی کے بعدسیاسی سمجھوتے پر تنقید کا سامنا


دونوں جماعتیں پہلے بھی متعدد بار اتحاد ختم کرچکی ہیں
دونوں جماعتیں پہلے بھی متعدد بار اتحاد ختم کرچکی ہیں

متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے سندھ کے گورنر عشرت العباد کی استعفیٰ دینے کے اکیس روز بعد منگل کو اپنے عہدے پر واپسی اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے تحت کراچی کی دو نشستوں پر بدھ کو ہونے والے انتخابات سے پیپلز پارٹی کی دستبرداری جیسے عوامل اس بات کے عکاس ہیں کہ دونوں جماعتوں کے درمیان شدید اختلافات کے بعد ایک بار پھر مفاہمت اور سمجھوتہ ہو چکا ہے ۔

لیکن تعلقات میں نرمی کے بعد بھی ایم کیو ایم کی شدید مخالفت کے با جود صوبے میں نافذ کیے گئے کمشنری نظام کا مستقبل جہاں تاحال واضح نہیں ہو سکا ہے وہاں عوامی اور اقتصادی حلقوں میں یہ سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ اگر چہ دو نوں بڑی جماعتوں میں مفاہمت ہو چکی ہے لیکن اس دوران ہونے والے فسادات میں 115 سے زائد افراد کی ہلاکتوں اور متعدد نجی املاک کے نقصان کا ذمہ دار کون ہے ۔؟

رضا ہارون ایم کیو ایم کے ایک مرکزی رہنما ہیں ۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی کا فائدہ تیسری قوت اٹھاتی ہے لیکن اس دوران شہریوں کے جان و مال کے تحفظ اور امن و امان کی بحالی کی ذمہ داری صرف ریاست پر ہی عائد ہوتی ہے ۔ ان کے بقول” ساری کی ساری ذمہ داری ریاست ، ریاستی اداروں، وفاقی اور صوبائی حکومت کے ان وزراء کی ہے جن کے پاس براہِ راست یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صوبے کا امن و امان بحال کریں۔ “

دوسری جانب یہی سوال جب حکمراں پیپلز پارٹی کی شرمیلا فاروقی سے کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں میں کشیدگی سے ہلاکتوں اور مالی نقصان کی ذمہ داری حکومت سمیت تمام اتحادیوں پر عائد ہوتی ہے کیوں کہ ان فسادات میں سیاسی جماعتیں کسی تیسری قوت کے ہاتھوں استعمال ہو جاتی ہیں اور جب صورتحال کا اندازہ ہوتا ہے تو پانی سر پر سے گزر چکا ہوتا ہے ۔

پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو کشیدگی کے بعدسیاسی سمجھوتے پر تنقید کا سامنا
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو کشیدگی کے بعدسیاسی سمجھوتے پر تنقید کا سامنا


وہ کہتی ہیں ”جو عام آدمی ہے جس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے اس کی جان چلی جاتی ہے ۔ ہم تو پھر بھی آپس میں مل بیٹھتے ہیں لیکن جو جانیں چلی جاتی ہیں ، جو گھر اُجڑ جاتے ہیں وہ ہم کبھی بھی نہیں بسا سکتے ۔ تو یہ جو خون ہے یہ ہم سب کے سر پر آتا ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں نہ تو اس قسم کے کوئی اقدامات اٹھانے چاہئیں جس سے لوگوں کو نقصان ہو اور نہ ہی زبان سے ایسے الفاظ استعمال کرنے چاہئیں جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔“

متحدہ قومی موومنٹ ماضی میں متعدد بار حکومت سے علیحدہ ہو کر حکومت کا حصہ بنی ہے ۔ مبصرین ماضی کے تناظر میں اب بھی یہی توقع کررہے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان کشیدگی او رمفاہمت کے اس کھیل کے دوران پر تشدد واقعات میں متاثر ہونے والے عام افراد کے لئے تا حال حکومت کی جانب سے کسی معاوضہ کا اعلان نہ ہونا افسوس ناک ہے ۔

XS
SM
MD
LG