ثمینہ کی عمر یہی کوئی 33،34 سال ہوگی۔ وہ سرجانی ٹاوٴن میں واقع ’خدا کی بستی‘ میں رہتی ہے۔ اس کی شادی ہوئی نہیں۔۔ یا۔۔ اس نے کی نہیں یہ پوچھنے کی کبھی ہمت نہیں ہوئی۔ ایک بیمار اور لاغر سی بڑی بہن اور ایک جوان بھتیجی اس کے ساتھ رہتی ہے۔ بہنوئی کا برسوں پہلے ایک حادثے میں انتقال ہوچکا ہے۔ لہذا، بہن اور بھتیجی کی کفالت بھی خود اسی کے ذمے ہے۔
گزر اوقات کے لئے وہ دوائیں بنانے والی ایک کمپنی میں ’کچی ملازم‘ ہے، فیکٹری کی انتظامیہ کچھ دن یا کچھ مہینے کام کراکے ایک ماہ کی جبری چھٹی پر بھیج دیتے ہیں۔ انہیں شاید خدا سے زیادہ فیکٹری مزدوروں کے لئے بنائے ہوائے قوانین سے ڈر لگتا ہے۔ انہیں خدشہ رہتا ہے کہ اگر مسلسل کام کرا لیا تو ثمینہ جیسی انگنت خواتین کو ’پکی ملازمت‘ نہ دینا پڑ جائے۔ اس صورت میں انہیں زیادہ تنخواہ اور زیادہ مراعات دینا پڑ سکتی ہیں۔
جس مہینے وہ ’جبری رخصتی‘ پر ہوتی ہے وہ پہاڑ جیسا مہینہ کاٹنا اس کے لئے دوبھر ہو جاتا ہے۔ تنخواہ کے ساتھ ساتھ راشن پانی کا آسرا ختم ہوجاتا ہے، مگر پیٹ کی آگ بھڑکتی رہتی ہے۔
اسے ثمینہ کی بدقسمتی کہئے یا فیکٹری مالکان کا نصیب۔۔جیسے ہی رمضان کا مہینہ شروع ہوا ثمینہ کو کام سے الگ کردیا گیا۔ اب ایک ماہ کا راشن جٹانا اور وہ بھی رمضان جیسے ڈبل خرچ والے مہینے میں ۔۔اس کی تو جیسے کمر ہی ٹوٹ گئی۔
ثمینہ بلا کی خوددار اور نہایت سفید پوش ہے کسی سے مانگنا اسے پسند نہیں ۔۔اس لئے گھرگھر کام ڈھونڈنے لگی۔ اسی دوران ایک پرانی شناسا خاتون کو اس پر ترس آگیا اور اس نے ایک ’راشن کوپن‘ اس کے حوالے کر دیا۔
ثمینہ کی طرح کراچی میں آج بھی بے شمار گھرانے ایسے ہیں جو نہایت سفید پوش اور جن کے باسی انتہائی خودار ہیں۔ان کی خودداری اور خود انحصاری کو ذرہ برابر بھی ٹھیس نہ پہنچے اور انہیں مہینے بھر کا راشن بھی خاموشی سے ملتا رہے اسی خیال کے پیش نظر کراچی کا ایک غیر سرکاری اور رفاعی ادارہ ’عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ‘ یہ خدمات انجام دے رہا ہے۔
ٹرسٹ کے ایک اعلیٰ عہدیدار شکیل دہلوی نے وائس آف امریکہ کو بتایا: ’ادارے کی جانب سے ہر مہینے سینکڑوں افراد کو مفت راشن فراہم کیا جاتا ہے جو اجناس کے علاوہ وقتاً فوقتاً مختلف ڈونرز کی جانب سے عطیہ کردہ اشیائے خورد و نوش و دیگر اشیائے ضروریہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ صدقے کے بکروں کا گوشت بھی ان پیکیجز میں شامل ہوتاہے۔‘
راشن کے لئے ٹوکن سسٹم کیوں بنانا پڑا اور اس سے کیا فائدہ ہے، اس حوالے سے شکیل دہلوی کا کہنا تھا کہ ’عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ کے پاس راشن پیکجز کی تقسیم کا انتہائی منفرد اور منظم نظام موجود ہے۔ بدقسمتی سے ہمیں آئے روز ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں جس میں امدادی سامان کی تقسیم کے موقع پر بھگدڑ مچ جانے کی صورت میں قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ اس صورتحال سے بچنے کے لئے ٹرسٹ نے شروع ہی سے راشن تقسیم کو باقاعدہ ایک سسٹم کے تحت انجام دیا۔ ادارہ مختلف موثر شخصیات کو مختلف تعداد میں راشن ٹوکن امانت کے طور پر دیتا ہے۔ یہ شخصیات مستحق افراد تک یہ ٹوکن پہنچاتی ہیں جو ٹوکن پر لکھی تاریخ پر ادارے کے دفتر جا کر راشن وصول کرلیتے ہیں اور یوں شفاف طریقے سے راشن کی تقسیم کا عمل مکمل ہوتا ہے۔‘
ثمینہ کو بھی ایسا ہی ایک ٹوکن ملا تھا ۔ اس ٹوکن کے عوض اسے ایک ماہ کا راشن ملا جو اس کے بقول ’ایک ماہ کا راشن ۔۔اس کی ایک ماہ کی زندگی ‘ ہے۔ اس حوالے سے دیکھیں تو عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ اب تک ان گنت لوگوں کو نئی زندگیاں بخش چکا ہے۔ 1994ء میں قائم ہونے والا یہ ٹرسٹ 20سالوں سے انسانی خدمت کا لازوال سفر طے کر چکا ہے اور یہ سفر اب بھی جاری ہے۔
ایک مشہور سماجی کارکن جو اپنا نام سامنے نہیں لانا چاہتے ان کا کہنا ہے ’عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ پیدائش سے لیکر تدفین تک زندگی کے ہر موڑ پر لوگوں کی مدد کرتا ہے۔ بیماری میں، تعلیمی میدان میں، فیس کی ادائیگی کے وقت، کھانوں کی فراہمی، ملک میں کہیں بھی کوئی آفت یا مصیبت آئے، قحط پڑے، زلزلہ آئے یا پانی کا بحران ہو، لڑکیوں کی شادی کے انتظامات ہوں یا روزگار کی فراہمی اسی قسم کی انگنت خدمات۔۔ٹرسٹ سب کی مدد میں پیش پیش رہتا ہے۔‘