رسائی کے لنکس

کراچی کو سونامی کے خطرے سے بچانے والی ’ڈھال‘ کمزور ہوگئی


ماہرین نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ کراچی کے ساحل پر واقع مینگرووزکے قدرتی حصار کی تباہی کا سلسلہ اگر یوں ہی جاری رہا تو تقریباً دو کروڑ آبادی والے شہر کو سمندری طوفانوں۔۔ یہاں تک کہ سونامی جیسی آفت کا بھی سامنا کرناپڑ سکتا ہے

بحیرہٴعرب کے ساحل پر آباد پاکستان کے سب سے بڑے شہر کو سونامی اور سمندری طوفان جیسے خطرات سے بچانے والی ڈھال ’مینگرووز‘ کا وجود آلودگی، آبپاشی کے ناقص نظام اور غیرقانونی کٹائی کے باعث خطرے سے دوچار ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی، اے ایف پی کے مطابق، ماہرین نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ کراچی کے ساحل پر واقع مینگرووز کے قدرتی حصار کی تباہی کا سلسلہ اگر یوں ہی جاری رہا تو تقریباً دو کروڑ آبادی والے شہر کو سمندری طوفانوں۔۔ یہاں تک کہ سونامی جیسی آفت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

کراچی کے قریب ہی ہمالیہ سے طویل سفر کا آغاز کرنے والے دریائے سندھ کا سفر بھی ختم ہوتا ہے جب وہ سمندر میں گرتا ہے۔دریائے سندھ کا زرخیز ڈیلٹا ہی دراصل ہرے بھرے مینگرووز کا گھر ہے جو بیک وقت نمکین اور تازہ پانیوں میں نشونما پاتے ہیں۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے 50 سالہ مچھیرے، طالب کچھی نے پرانی یادوں کو دہراتے ہوئے بتایا ’ایک وقت وہ بھی تھا جب مون سون کے طوفانی موسم میں ہم مینگرووز کے جُھنڈ میں پناہ لیا کرتے تھے۔ کم از کم چار کشتیوں کو بیک وقت مینگرووز کے ساتھ باندھ کر ہم مچھیرے خوب باتیں کیا کرتے تھے اور گانے گایا کرتے تھے۔ لیکن، اب مینگرووز پچھلے دور کا بس سایہ ہی نظر آتے ہیں۔‘

میرین بائیولوجسٹ محمد معظم خان نے بتایا کہ، ’20ویں صدی کے شروع میں مینگرووز چھ لاکھ ہیکٹر رقبے پر پھیلے ہوئے تھے جو اب گھٹتے گھٹتے ایک لاکھ تیس ہزار ہیکٹر تک رہ گئے ہیں۔ مینگرووز کے کم ہونے کی وجہ غیر قانونی کٹائی، قریبی کارخانوں سے نکلنے والی آلودگی اور سندھ و پنجاب میں ناقص آبپاشی نظام کے باعث آنے والے سیلاب ہیں‘۔

مینگرووز کے جنگلات سے مچھلیاں پکڑنے اور سیپیاں نکال کر رزق حاصل کرنیوالے مچھیرے پچھلے کئی سالوں سے مینگرووز کی تعداد میں کمی کے خطرے کی نشاندہی کرتے آئے ہیں، لیکن کسی نے کوئی خاص توجہ نہیں دی۔

کراچی کے مچھیروں کی بستی ابراہیم حیدری سے چھوٹی کشتیوں میں سوار ہو کر بہت سے مقامی لوگ مینگرووز کی کٹائی کے لئے جاتے ہیں۔ ان مینگرووز کو یا تو جانوروں کے چارے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے یا پھر ایندھن کے طور پر جلانے کے لئے بیچ دیا جاتا ہے۔

مینگرووز کی کٹائی کو غیرقانونی قرار دیا گیا ہے، لیکن مینگرووز کو کاٹنے کی انتہائی سزا صرف چھتیس 36ہزار روپے یعنی 360 ڈالرز جرمانہ ہے۔ عادی مجرموں کے لئے یہ جرمانہ دگنا کردیا جاتا ہے، لیکن مینگرووز کاٹنے کے الزام میں شاید ہی کسی نے سزا پائی ہو۔

انڈس ڈیلٹا میں آلودگی کے بڑھنے کی ایک اہم وجہ نئی نئی فیکٹریوں کا قیام ہے۔ کراچی کے مشرقی حصے میں واقع پاور پلانٹ کے قریبی تمام مینگرووز خشک ہوگئے اور ان میں رہنے والی مچھلیاں ختم ہوگئیں۔

ساحلی پٹی پر موجود مینگروز سمندری طوفان کے ساحل سے ٹکرانے کی صورت میں نہ صرف اس کی شدت میں کمی کرتے ہیں، بلکہ سونامی جیسے بڑے خطرے کے آگے بھی حفاظتی دیوار کا کام کرتے ہیں۔ بلوچستان کے علاقے مکران میں واقع کھائی میں عربین اور یوریشین ٹیکٹونک پلیٹس ملتی ہیں جوکسی بھی بڑے زلزلے کا سبب بن سکتی ہیں۔

سنہ 1945 میں سمندر میں آنے والے زلزلے سے کراچی میں سونامی آیا اور چار ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے۔ اقوام متحدہ کی تازہ جائزہ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر دوبارہ اس طرح کا زلزلہ آیا تو کراچی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف، والڈ لائف این جی او کے لئے کام کرنے والے میرین بائیو لوجسٹ معظم خان کا کہنا ہے، ’مینگرووز ایکوسسٹم کا ایک اہم حصہ ہیں اورقدرتی آفت سے بچاوٴ کے لئے ان کا تحفظ ضروری ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ حالیہ سالوں میں مینگرووز کو دوبارہ اگانے کی مہم شروع کی گئی ہے، جس کی رفتار سست ضرور ہے۔ لیکن، امید ہے کہ اس سے مینگرووز کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ ہو سکے گا۔ اگر مینگرووز کی پوری طرح افزائش کی گئی تو پاکستان ان چند ملکوں میں شامل ہوجائے گا جہاں مینگرووز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

XS
SM
MD
LG