رسائی کے لنکس

کراچی میں ہنگامہ آرائی، مرنے والوں کی تعداد 8 ہوگئی


سندھ کے وزیر داخلہ منصور وسان نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کوصورتحال پرفوری قابوپانے کے احکامات جاری کیے ہیں اور ڈی آئی جی شرقی کی نگرانی میں تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔

کراچی میں منگل کو ایم کیو ایم کے کارکن اور اس کے بھائی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والی ہنگامہ آرائی ، فائرنگ اور جلاوٴ گھیراوٴمیں مرنے والوں کی تعداد 8ہوگئی ہے جبکہ 35گاڑیاں نذر آتش کردی گئیں۔ کراچی کے علاوہ سندھ کے کچھ شہروں سے بھی اسی قسم کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں خاص کر حیدرآباد میں کراچی کے بعد سب سے زیادہ ہنگامہ آرائی اور جلاوٴ گھیراوٴ دیکھنے میں آیا۔

کب ؟ کیا؟ کیوں؟ اور کیسے؟
کراچی کے متوسط طبقے کی آبادی پی آئی بی کالونی میں منگل 27مارچ کی صبح 5 بج کر 20منٹ کے قریب چند نامعلوم مسلح افراد ایک گھر میں داخل ہوئے اور اندر آتے ہی انہوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی ۔ گھر میں سوئے ہوئے تین افراد اس فائرنگ کا نشانہ بنے۔ ان میں سے ایک کا نام منصور مختار ، دوسرے کا نام مقصود مختار اورتیسری ایک خاتون عظمیٰ مقصود تھے۔رشتے کے اعتبار سے دونوں بھائی اور بھابھی تھے۔ملزمان فائرنگ کرتے ہوئے آناً فاناً موقع سے فرار ہونے میں بھی کامیاب ہوگئے۔

فائرنگ کے نتیجے میں منصور مختار موقع پر ہی ہلاک ہوگیا جبکہ مقصود مختار اورعظمیٰ مقصود زخمی ہوگئے۔ منصور مختار کراچی کی ایک بااثر اور اہم سیاسی تنظیم متحدہ قومی موومنٹ پی آئی بی سیکٹر کمیٹی کارکن اور سرگرم کارکن تھا۔

فائرنگ کی آوازوں سے فوراً ہی پورا محلہ جاگ اٹھا ۔اہل محلہ نے امدادی اداروں اورپولیس کو اطلاع دی جنہوں نے زخمیوں کوقریبی اسپتال پہنچایا۔ منصور مختار کے ایک قریبی عزیز محمد اشرف نے وائس آف امریکہ کو واقعے کی مزید تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ واقعے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد جب مقصود کو اسپتال میں طبی امداد دی جارہی تھی ، وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اسے چار گولیاں لگی تھیں ۔

ادھر جیسے ہی یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی ایم کیوایم نے اپنے کارکن کی موت کے افسوس میں یوم سوگ منانے کا اعلان کردیا۔ اگرچہ یوم سوگ پرامن طور پر منانے کا اعلان ہوا تھا تاہم نامعلوم مشتعل افراد نے شہر میں جلاوٴ گھیراوٴ اور ہنگامہ آرائی شروع کردی۔

پوری طرح صبح ہوتے ہوتے شہر کے مختلف علاقوں سے شدید فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں۔ ادھر جو ٹریفک بھی سڑک پر معمول کے مطابق نکلا ، مشتعل افراد نے انہیں نذر آتش کرنا شروع کردیا۔شام ہوتے ہوتے تین درجن سے زائد گاڑیاں جلادی گئیں جبکہ ہنگامہ آرائی اور فائرنگ کے نتیجے میں 8افراد ہلاک ہوگئے۔ مرنے والوں میں ایک بچہ بھی شامل ہے ۔

واقعے کے فوری بعد رات بھرے کھلے رہنے والے تمام پیٹرول پمپس بند ہوگئے ۔ پبلک ٹرانسپورٹ نے آغاز کیا ہی تھا کہ جلاوٴ گھیراوٴ کی خبروں کے بعد اسے بھی بند کردیا گیاجس کے سبب سڑکیں سنسان ہوگئیں ۔ اسکول ، کالج اور دیگر تعلیمی ادارے بھی نہ کھل سکے جبکہ تمام کاروباری مراکز اور دفاتر بھی بند رہے۔ جو دفاتر کھلے بھی تو وہاں ملازمین کی حاضری نہ ہونے کے برابر تھی۔

جعفر طیار سوسائٹی، رفاع عام، ملیر ہالٹ، سینٹرل جیل، تین ہٹی، کالابورڈ، ابوالحسن اصفہانی روڈ ،، لانڈھی ، طارق روڈ ، نیو ایم اے جناح روڈ ، گلستان جوہر، نرسری، لیاقت آباد، ملیر سٹی، جوہر چورنگی، شاہ فیصل کالونی، گلشن اقبال ، کورنگی، اورنگی ، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، نیو کراچی ، نارتھ کراچی ، صدر اور شاہ فیصل کالونی سمیت شہر بھر سے گاڑیاں جلائے جانے کی اطلاعات موصول ہوئیں جبکہ جمشید روڈ اور کچھ دیگر علاقوں میں ٹائرز بھی جلائے گئے۔ گلبرگ بلاک اٹھارہ میں ایک ہوٹل کو اگ لگادی گئی۔ ادھر قصبہ کالونی سے دو گروپوں کے درمیان جھگڑے کی اطلاع بھی موصول ہوئیں۔

واقعے کا اثر اندرون سندھ بھی دیکھا گیا۔ سکھر، حیدرآباد ، نوابشاہ اور میرپور خاص سے بھی فائرنگ ، جلاوٴ گھیراوٴ اور ہنگامہ آرائی کی اطلاعات موصول ہوئیں۔

تیسرے پہرمنصور و مقصود کی نماز جنازہ جناح گراوٴنڈ، عزیزآباد میں ادا کی گئی جبکہ ان کی تدفین ایم کیوایم کے مخصوص قبرستان میں عمل میں آئی۔اس موقع پر ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی ڈاکٹر صغیر احمد نے پی آئی بی کالونی کے ایس ایچ او کو معطل کئے جانے کا مطالبہ کیا۔

اپنے کارکن کی موت پر ایم کیو ایم کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں واقعہ کا ذمے دار مبینہ طور پر لیاری گینگ وار کو ٹھہرایا گیا ۔ساتھ ہی حکومت سے جلد ازجلد ملزمان کو گرفتار کرنے کا الٹی میٹم دیا گیا جو 48گھنٹے پر مبنی ہے۔ اعلامیہ کے مطابق اگر اس الٹی میٹم پر اعلان نہ کیا گیا تو ایم کیوایم آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی ۔ ایم کیو ایم نے صدر، وزیر اعظم ، وزیراعلیٰ سندھ اور دیگر حکام سے واقعے کے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

ادھر سندھ کے وزیر داخلہ منظور وسان نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو صورتحال پرفوری قابو پا نے کے احکامات دیئے جبکہ ڈی آئی جی شرقی کی نگرانی میں تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دی ۔

XS
SM
MD
LG