رسائی کے لنکس

کراچی کی ملیر جیل سے 89 بھارتی ماہی گیر قیدی رہا


کراچی کی ملیر جیل سے 89 بھارتی ماہی گیر قیدی رہا
کراچی کی ملیر جیل سے 89 بھارتی ماہی گیر قیدی رہا

جوڈیشل کمیٹی نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ مچھیروں کے علاوہ دونوں ملکوں کے ایسے شہر ی جو ویزا قوانین کی معمولی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوں انھیں بھی گرفتار نہ کیا جائے ۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین بھی اسی طرز کی ٹاسک فورس ہونی چاہیے جیسی بھارت اور سری لنکا کے درمیان قائم ہے اور جو ماہی گیروں کے معاملات کا فیصلہ موقع پر ہی کرتی ہے۔

حکومتِ پاکستان نے جذبہ خیر سگالی کے تحت ان 89 بھارتی قیدیوں کو رہا کیا ہے جو سمندری حدود کی حلاف ورزی کرتے ہوئے گذشتہ دو سالوں کے دوران مختلف وقتوں میں گرفتار ہوئے تھے۔ ان ماہی گیروں کو جمعرات کی صبح کراچی کی ملیر جیل سے دو بسوں کے ذریعے لاہور روانہ کیا گیا ہے جہاں جمعہ کو واہگہ چیک پوسٹ پر انھیں بھارتی حکام کے حوالے کیا جائے گا۔ روانگی کے وقت ان کے ہاتھوں میں پاکستانی پرچم موجود تھے اور ان میں سے بیشتر کا تعلق بھارتی صوبہ گجرات سے ہے۔

ڈسٹرکٹ جیل ملیر کے عہدیداروں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے پاس کل 341 قیدی تھے جن میں سے 89قیدیوں کو جمعرات کورہا گیا ہے ۔ مزید چالیس قیدیوں کے کاغذات بھی مکمل ہیں اور کلےئرنس کا انتظار ہے اور دس بارہ دن میں وہ بھی چلے جائیں گے جبکہ جیل میں قیدمزید 212 بھارتی ماہی گیروں کے مقدمات زیرِ سماعت ہیں جیسے ہی ان کا فیصلہ ہوگا انھیں بھی اپنے وطن بھیج دیا جائے گا۔

واضح رہے کہ ملیر جیل کراچی سے یہ رواں سال رہائی پینے والے بھارتی قیدیوں کی پہلی کھیپ ہے۔ اس سے قبل رواں ماہ 7 اپریل کو جاسوسی کے جرم میں عمر قید کی سزا پانے والے بھارتی شہری گوپال داس کو حکومتِ پاکستان نے ستائیس برس کی سزا کے بعدلاہور کی کوٹ لکھپت جیل سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کیا تھا۔ جبکہ بھارت نے اسی ماہ کی 11 تاریخ کو 39 پاکستانی قیدیوں کو رہا کیا ہے۔

ان قیدیوں کی رہائی دونوں ملکوں کے درمیان جاری اعتماد سازی کے ان اقدامات کا حصہ ہے جو کچھ عرصہ سے جاری ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے گذشتہ سال ستمبر میں 442 بھارتی قیدیوں کو چار مرحلوں میں جذبہ خیر سگالی کے تحت انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر رہا کیا تھا تاہم دستاویزات مکمل نہ ہونے کی وجہ سے مزید 12 بھارتی ماہی گیروں کو 12 دسمبر 2010 ء میں بھارت کے حوالے کیا گیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن مذاکرات سال 2008 ء میں ممبئی حملوں کے بعد معطل ہوگئے تھے۔

دھرمیندر, بھارتی قیدی
دھرمیندر, بھارتی قیدی

اپنے وطن لوٹنے والے ان قیدیوں میں دھرمیندر بھی شامل ہے جو گذشتہ اٹھارہ ماہ سے کراچی کی ملیر جیل میں قید رہا۔ اپنے ماں باپ اور بچوں کے پاس اور اپنے ملک واپس جانے پر اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اس نے بتایا کہ” سمندر میں سرحد کا پتہ نہیں چلتا اور ہم ادھر ادھر ہوجاتے ہیں۔کھیتی باڑی کے علاہ ماہی گیری سے ہم دو تین ہزار روپے کما لیتے ہیں ۔ دونوں ملکوں کی دشمنی کی سزا غریب ماہی گیروں کو ملتی ہے اور ان کے خاندانوں کو دکھ سہنا پڑتا ہے“۔دھرمیندر نے کہا کہ اسی لیے وہ دونوں ملکوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ د ونوں طرف سے قیدیوں کو رہا کیا جائے، دشمنیوں کو ختم کریں اور ایک ہو کر رہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندری حدود کا تعین ایک غریب مچھیرا آسانی سے نہیں کرسکتا جس کے وجہ سے پاکستان اور بھارت کے ماہی گیر ایک دوسرے کی سمندری حدود کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوکر گرفتارہوجاتے ہیں۔

جسٹس ناصر اسلم زاہد قیدیوں کی رہائی کے لیے قانونی مدد فراہم کرنے والی کمیٹی کے سربراہ اور پاک بھارت جوڈیشل کمیٹی کے رکن بھی ہیں۔گذشتہ روز کراچی پریس کلب میں بھارتی قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کی مشترکہ جوڈیشل کمیٹی نے دونوں حکومتوں کو تجویز دی ہے کہ غلطی سے سمندری حدود کی حلاف ورزی پر غریب مچھیروں کو گرفتار کرنے اور ان کی لانچیں ضبط کرنے کے بجائے متعلقہ ادارے انھیں تنبیہ کرکے موقع پر ہی چھوڑدیا کریں۔

جوڈیشل کمیٹی نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ مچھیروں کے علاوہ دونوں ملکوں کے ایسے شہر ی جو ویزا قوانین کی معمولی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوں انھیں بھی گرفتار نہ کیا جائے ۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین بھی اسی طرز کی ٹاسک فورس ہونی چاہیے جیسی بھارت اور سری لنکا کے درمیان قائم ہے اور جو ماہی گیروں کے معاملات کا فیصلہ موقع پر ہی کرتی ہے۔

پاک بھارت جوڈیشل کمیٹی کا اجلاس رواں ماہ پاکستان میں منعقد ہوگا جس کے لیے بھارت سے چار ریٹائرڈ جج 19 سے 23 اپریل تک پاکستان کا دورہ کریں گے اور اس دوران پاکستانی جیلوں میں بھارتی قیدیوں سے ملاقات بھی کریں گے۔

XS
SM
MD
LG