رسائی کے لنکس

کیا کراچی سرکلر ریلوے کے خواب کو تعبیر ملنے والی ہے؟


کراچی ریلوے کی بحالی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ اس کے ٹریک اور زمین پر مافیا کا قبضہ ہے۔
کراچی ریلوے کی بحالی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ اس کے ٹریک اور زمین پر مافیا کا قبضہ ہے۔

کراچی سرکلر ریلوے کا آغاز1964 میں ہوا تھا۔ 43 کلو میٹر طویل سرکلر ریلوے سے کراچی کی 70فیصد آبادی فیض یاب ہو رہی تھی جبکہ اس دوران شہر بھر میں بڑی بسیں اور منی بسیں بھی شہریوں کی آمد ورفت کی ضروريات پوری کررہی تھیں۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام درہم برہم ہے ایسے میں سرکلر ریلوے کی بحالی کی سخت ضرورت محسوس کی جارہی ہے اورتقریباً دو ارب ڈالر کے اس منصوبے کو سی پیک منصوبے میں شامل کرلیا گیا ہے لیکن اس کی بحالی میں لینڈ مافیا مبینہ طور پر بدستور حائل ہے اور پھر بحالی کے باوجود اگر منصوبے میں توسیع نہ کی گئی تو یہ اہل کراچی کی ضروريات پوری کرنے کے قابل نہ ہوگا۔

کراچی سرکلر ریلوے کا آغاز1964 میں ہوا تھا۔ 43 کلو میٹر طویل سرکلر ریلوے سے کراچی کی 70فیصد آبادی فیض یاب ہو رہی تھی جبکہ اس دوران شہر بھر میں بڑی بسیں اور منی بسیں بھی شہریوں کی آمد ورفت کی ضروريات پوری کررہی تھیں۔

دو دہائی قبل 1999 میں اس سرکلر ریلوے کو خسارے کی بنیاد پر بند کردیا گیا ، جب کہ پاکستان کی ریلوے کا پورے کا پورا نظام ہی بدترین خسارے کی زد میں ہے۔

کراچی کے شہریوں کا کہنا ہے کہ اس دوران شہر میں ٹرانسپورٹ کا نظام بری طرح تباہ ہو چکا ہے۔ بڑی بسیں تو خال خال ہی سڑکوں پر دیکھی جاتی ہیں منی بسیں اور دیگر پبلک ٹرانسپورٹ بھی عملا ناپید ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے میں سرکلر ریلوے کی بحالی کی

ڈی ایس ریلوے اعجاز وہرہ کا کہنا ہے کہ کراچی شہر کے حوالے سےسرکلر ریلوے کی بڑی اہمیت ہے۔ پاکستان ریلوے نے 2004 میں اس کی بحالی کے لئے حکومت پاکستان سے بات کی تھی۔ جزوی طور پر اس پر کام بھی شروع کردیا گیا تھا، جس کے بعد جاپان کے ادارے جائیکا کے ذریعہ اسٹڈی کرائی گئی لیکن بعض وجوہات کی وجہ سے اس پر کام مکمل نہ ہو سکا ۔ لیکن اب سی پیک میں یہ منصوبہ شامل کرلیا گیا ہے، اور حتمی مراحل میں ہے۔ اب یہ خواب نہیں رہا بلکہ حقیقت میں ڈھلنے کو ہے۔

تاہم اس کی بحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ مبینہ طور پر لیڈ مافیا ہے ۔ سرکلر ریلوے کی بحالی کے لئے جاپان کے ادارے جائیکا نے اسٹڈی مکمل کرلی تھی، تاہم وہ بھی اس لینڈ مافیا سے عاجز آکر منصوبہ ختم کرکے واپس لوٹ گئے ہیں ۔ سرکلر ریلوے کے ٹریک یا تو کچرہ کنڈی بن گئے ہیں یا پھران پر جھگیوں کی بستیاں آباد ہوگئی ہیں۔ اس کے 20 سے زائد اسٹیشن خستہ حالی کا شکار ہیں۔ ان میں سے کئی کچرہ کنڈی کے طور پر استعمال ہورے ہیں اور بعض میں جانور باندھے جارہے ہیں۔

ڈی ایس ریلوے اعجاز وہرہ کہتے ہیں کہ سرکلر ریلوے کے ٹریک پر قائم تجاوزت ختم کرنے کے لئے سندھ حکومت اقدامات کر رہی ہے۔ پاکستان ریلوے ان کی مدد کررہا ہے۔ انہوں نے ٹینڈر بھی کردیا ہے۔ دونوں اطراف سےباڑھ لگائے جائیں گے۔ اس طرح یہ مسئلہ مستقل حل ہو جائے گا۔

سی پیک کے تحت اس منصوبے کو ایک ارب ستانوے کروڑ ڈالر کی لاگت سے مکمل کیا جائے گا۔ لیکن کیا یہ نصف صدی پرانا منصوبہ بحال ہونے کے باوجود شہریوں کی آمد ورفت کی ضرورت پوری کرسکے گا۔

ڈی ایس ریلوے اعجاز وہرہ کےبقول ، یہ سرکلر ریلوے 1964 کا منصوبہ ہے۔ ا س وقت کراچی میں آبادی بہت کم تھی، اب کراچی بہت پھیل چکا ہے اس لئے لازمی طور پر فیز ٹو میں اس کو توسیع دینا پڑے گا، لیکن یہ مسئلہ سندھ حکومت کا ہے۔ اس کا منصوبہ لازمی ہوگا اگر نہ ہوا تو یہ سرکلر ریلوے بحال ہونے کے باوجود کراچی کی ضرورت پوری نہیں کرسکے گا۔

سرکلر ریلوے اہل کراچی کا ایک خواب ہے جسے دو دہائی قبل بغیر کسی معقول وجہ کے بند کردیا گیا تھا۔ ساتھ ہی حکومت نے عوام کو آمد ورفت کا متبادل بھی فراہم نہیں کیا۔ کراچی کے شہریوں کا خیال ہے کہ ایک جانب جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک اپنے شہریوں کو انڈرگراونڈ ریلوے اور فاسٹ ریلوے کا نظام دے رہے ہیں تو دوسری جانب کراچی کی دو کروڑ سے زائد کی آبادی پبلک ٹرانسپورٹ اور سرکلر ریلوے کا خواب ہی آنکھوں میں سجائے بیٹھی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کے یہ خواب کب پورے ہوتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG