نیلو فر مغل
سکاٹ لینڈ یارڈ کے ماہرین کی ایک ٹیم افغانستان میں گیارہ جنوری کو ہونے والے کے حملے کی تفتیش کے لئے قندهار شہر پہنچی گئی ہے۔ اس حملے میں افغان نائب گورنر سمیت سات افغان شہری اور متحدہ عرب امارات کے پانچ سفارت کار ہلاک ہو گئے تھے۔
قندهار پولیس چیف عبد الرزاق نے کہا ہے کہ برطانوی پولیس کا ایک وفد اور متحدہ عرب امارات کی ایک تفتیشی ٹیم قندهار میں ہونے والے بم دھماکے کی تحقیقات کے لئے ملک میں موجود ہیں۔
اس حملے میں افغانستان حکومت کے پانچ اعلیٰ عہدے دار زخمی بھی ہوئے ہیں۔
طالبان نے اس بم دھماکے میں کسی بھی طرح ملوث ہونے سے انکار کیا ہے اور اس حملے کا إلزام مقامی سطح پر اندرونی مخاصمت پر عائد کیا ہے۔
اب تک أفغان حکومت اور متحدہ عرب امارات کی تین ٹیمیں تحقیقات کے لیے قندهار جا چکی ہیں ۔ برطانوی پولیس متحدہ عرب امارات کی درخواست پر بلائي گئی ہے تاکہ اس مہلک حملے کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جا سکے۔
قندهار کے سیکیورٹی چیف عبد الرزاق نے وائس آف امریکہ کو بتا یا کہ افغان حکومت اس حملے کی جامع اور ہر پہلو سے تحقیقات کرانا چاہتی ہے۔
قندهار حملے کی تحقیقات ایک ایسے وقت ہو رہی ہیں جب وہاں پر ہلاک ہونے والوں کے لئے فاتحہ خوانی ابھی تک جاری ہے۔
افغان انٹیلی جینس کے حکام نے اپنی ایک ابتدائی رپورٹ میں کہا ہے کہ قندهار میں ہونے والے حملے کا منصوبہ پاکستان کے شہر کوئٹہ میں بنایا گیا تھا ۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ یہ حملہ طالبان باغیوں نے پاکستانی خفیہ ایجنٹوں کی مدد سے کیا تھا۔
پاکستان نے گذشتہ ہفتے افغانستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کی شديد مذمت کی تھی۔
پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ إلزام تراشی سے خطے میں امن کے دشمن عناصر کو تقویت ملتی ہے اور یہ کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے اپنے علاقے سے دهشت گردوں کی تمام پناہ گاہوں کو ختم کر دیا ہے، لیکن دهشت گردوں کی سرحد کے آر پار نقل و حرکت روکنے کے لیے سرحد کی موثر نگرانی اور انٹیلی جینس معلومات کے تبادلے اور تعاون کو موثر بنانے کی ضرورت ہے۔