رسائی کے لنکس

'میں چاہتا ہوں کہ یہ لمحہ اسی طرح رہے' کوک اسٹوڈیو کی بلوچی آواز کیفی خلیل


کیفی خلیل وی او اے کو انٹرویو دیتے ہوئے
کیفی خلیل وی او اے کو انٹرویو دیتے ہوئے

کوک اسٹوڈیو پر جلوہ گر ہونے کے سفر میں کیفی کے لیے سب سے خوبصورت لمحہ وہ تھا جب وہ ایک دن گھر پہنچے تو ان کی والدہ نے خوشی سے آگے بڑھ کے ان کا ماتھا چوم لیا اور انہیں بتایا کہ انہوں نے کچھ دیر پہلے ہی ان کا کوک اسٹوڈیو والا گانا دیکھا ہے۔

لیاری کا شمار دو کروڑ سے زائد آبادی والے شہر کراچی کے پسماندہ علاقوں میں ہوتا ہے۔ ماضی میں اسے پیرس بنانے کے دعوے تو کیے گئے مگر یہاں کی تنگ و تاریک گلیوں میں رہنے والے باسی بلند و بالا ایوانوں میں رہنے والوں کی نظر کرم سے اکثر اوجھل ہی رہے۔

ہاں اتنا ضرور ہے کہ کل تک جس لیاری میں گینگ وارز کا راج اور گولیوں کی گونج تھی۔۔ آج اس کی گلیوں میں بچے بھاگتے دوڑتے نظر آتے ہیں۔

لیاری آج بھی غریب ہے لیکن پر سکون ہے۔ اب یہاں کے مشہور ککڑی گراؤنڈ میں بوریوں میں بند لاشیں نہیں بلکہ بچوں اور نوجوانوں کی درجنوں فٹبال ٹیمیں مشق کرتی نظر آئیں گی۔

آپ کراچی کے شہریوں سے پوچھیں تو علاقے کے پر تشدد ماضی کی وجہ سے وہ اسے علاقہ غیر سمجھ کر یہاں جانے سے کتراتے رہے ہیں۔ مگر لیاری ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ یہی وہ علاقہ ہے جسے فیض احمد فیض اور ابن انشا جیسے شعراء اور دانشوروں کی صحبت حاصل ہوئی۔

پتلی تماشے ہوں یا کنسرٹس، سٹریٹ تھیٹر ہو یا ادبی بیٹھکیں، فنون لطیفہ کی کونسی ایسی محفلیں تھیں جو یہاں نہیں سجا کرتی تھیں۔

اس علاقے سے ابھرنے والے اولمپینز، فٹبالرز، باکسرز، ویٹ لفٹرز بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔

لیاری میں بلوچ شہریوں کی اکثریت ہے جو یہاں پندرہویں صدی سے رہتے چلے آرہے ہیں۔ بلوچی شاعری میں غزل کی صنف بھی اسی علاقے سے ہی متعارف ہوئی۔

بچھلے دنوں موسیقی کے پروگرام کوک اسٹوڈیو پر ایک ساتھ تین ایسے گلوکار ایک خوبصورت کمپوزیشن لیکر سکرین پر جلوہ گر ہوئے جنہیں اس سے پہلے کم ہی لوگ جانتے ہوں گے۔

بلوچی زبان میں گائے گئے اس گانے "کنا یاری" میں پاپ بھی ہے ریپ بھی اور لوک رنگ بھی۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے وہاب بگٹی بلوچی تمبورہ اور مقامی لہجے میں جسے وہ سلیمانی بلوچی کہتے ہیں، گاتے نظر آرہے ہیں تو لیاری سے تعلق رکھنے والے کیفی گاتے گنگناتے کئی گہری باتیں کہہ جاتے ہیں۔ پھر لیاری ہی سے تعلق رکھنے والی ایوا بی بھی ہیں جو نقاب کے پیچھے ریپ کرتی سنائی دے رہی ہیں جو دیکھنے اور سننے والوں کے لیے ایک نیا خوشگوار تجربہ ہے.

'کنا یاری' کے کمپوزر نوجوان گلوکار اور موسیقار کیفی خلیل ہیں جنہوں نے گانے کےمرکزی بول بھی لکھے ہیں۔

آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے کیفی ،کمسنی ہی میں زندگی کی تلخیاں دیکھ چکے ہیں جس کی وجہ سے ان کی شخصیت باقی بہن بھائیوں سے بالکل مختلف رہی۔ کبھی اسکول کی شکل نہ دیکھنے والے شرمیلے، خاموش طبع اور الگ تھلگ رہنے والے کیفی، زندگی اور انسانی رویوں کو بخوبی سمجھتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کیفی خلیل کا کہنا تھا کہ جب انہیں بات کرنا مشکل لگتا ہے تو وہ اسے شاعری میں ڈھال کر گا دیتے ہیں۔ ان کے بقول ان کے سننے والے سمجھدار ہیں جو ان کا موڈ، مزاج اور پیغام سب ہی سمجھ لیتے ہیں۔

ساز و آواز سے کیفی کا ساتھ بچپن سے ہی جڑا ہے۔۔ والد جب بلوچی بینجو بجاتے ہوئے گانے گاتے، ننھے کیفی دلچسپی اور انہماک سے ان کے پہلو میں سب ذہن نشین کرتے رہتے۔

کچھ بڑے ہوئے تو موسیقی کا جنون تو تھا مگر دیگر بہت سے نوجوانوں کی طرح کوئی متعین سمت نہیں تھی۔ شروع شروع میں اردو کوورز گاتے رہے۔ دوستوں نے زور دیا کہ کچھ پروفیشنل کام کیا جائے تو انہیں بھی یہ خیال دل کو بھایا۔

اسی دوران انہیں یہ اندازہ بھی ہوا کہ جس موسیقی میں اب تک وہ طبع آزمائی کر رہے ہیں وہ ان کا مزاج نہیں ہے تو پھر اوریجنل تخلیق کے لیے وہ اپنی زبان کی طرف لوٹے اس بات کی پروا کیے بغیر کہ بلوچی زبان کی وجہ سے ان کے محدود ہو جانے کے امکانات زیادہ تھے۔

پیسوں کی تنگی کی وجہ سے شہر کے چھوٹے اسٹوڈیوز میں ریکارڈنگز کراتے، کم قیمت وڈیوز بناتے۔ مگر ان کی اس جدوجہد نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ موسیقی کی کوئی سرحد نہیں، وہ کسی زبان کی محتاج نہیں۔ کچھ سال لگے مگر کیفی کا ٹیلنٹ نگینے تلاش کرنے والوں کی توجہ حاصل کر گیا۔

آرٹسٹ کیفی اپنے اسٹوڈیو میں
آرٹسٹ کیفی اپنے اسٹوڈیو میں

ایسے ہی ایک روز جب کیفی کو کوک سٹوڈیو کے موجودہ پروڈیوسر ذوالفقار جبار خان کی کال موصول ہوئی تو انہیں یقین ہی نہیں آیا۔ کیفی کہتے ہیں کہ انہیں یہ بات کسی کو بتانے کا دل بھی چاہ رہا تھا اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچنے سے پہلے چھپانا بھی ضروری تھا۔ کیفی سادگی سے مسکراتے ہوئے بتاتے ہیں کہ "سب سے قریبی دوست کو بتانا چاہا تو وہ بھی اس وقت سو رہا تھا"۔

کوک اسٹوڈیو پر جلوہ گر ہونے کے سفر میں کیفی کے لیے سب سے خوبصورت لمحہ وہ تھا جب وہ ایک دن گھر پہنچے تو ان کی والدہ نے خوشی سے آگے بڑھ کے ان کا ماتھا چوم لیا اور انہیں بتایا کہ انہوں نے کچھ دیر پہلے ہی ان کا کوک اسٹوڈیو والا گانا دیکھا ہے۔ کیفی خود گانے کی ریلیز سے بے خبر گھر سے باہر تھے مگر گانا دیکھتے ہی ان کے دوست گھر آکر ان کی والدہ کے لیے ٹی وی لگا کر چلے گئے تھے۔ یہ قصہ بتاتے ہوئے کیفی کے لبوں پر مستقل مسکراہٹ تھی۔

کیفی بہت خوش ہیں کہ انہیں اپنے میوزک اور آواز کے ذریعے اتنے بڑے پلیٹ فارم سے اپنے علاقے، قوم اور زبان کا سفیر بننے کا موقعہ ملا ہے۔ ان کے بقول وہ ایک عرصے سے اس کے لیے محنت کر رہے ہیں۔

کیفی کی آواز آج گھر گھر جلترنگ بکھیر رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں،" میں چاہتا ہوں یہ لمحہ اسی طرح رہے۔ اسے قید نہ کیا جائے۔۔۔انجوائے کیا جائے۔"

اس شہرت سے انہیں خوشی تو ملی ہے مگر وہ تنہا اس کا لطف نہیں اٹھاناچاہتے۔ کیفی کہتے ہیں لیاری میں بہت ٹیلنٹ ہے اور ان سے بہتر بھی لوگ ہوں گے جنہیں مواقعے میسر نہیں اور وہ مایوس ہورہے ہیں۔

وہ چاہتے ہیں لیاری میں میوزک انسٹیٹیوٹ بنے جہاں ابھرتے ہوئے ٹیلنٹ کو نکھارا جا سکے۔

کیفی کے بقول لوگ اکثر لیاری کا ذکر ایسے کرتے ہیں جیسے یہ کسی الگ دنیا کا حصہ ہو اور اس علاقے سے سلوک بھی ایسا ہی کیا جاتا ہے۔ بار بار طویل دورانیے کے لیے بجلی چلے جانے سے بھی پریشان رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ علاقے کی اگر کوئی چیز ٹوٹ جائے یا خراب ہو جائے تو پھر مرمت میں ایک عرصہ لگ جاتا ہے۔

لیاری پر طنز کرنے والوں کو کیفی 'کنا یاری' میں گنگنا کر جواب دے رہے ہیں۔ اس گیت کے بولوں میں آپ کو بلوچی میں کچھ ایسا سننے کو ملے گا کہ،

"آپ باہر رہتے ہیں، میں لیاری کا رہنے والا ہوں۔۔۔

آپ خلیج میں ہیں اور آباد ہیں، میں لیاری میں برباد ہوں۔

آپ اچھی نیند سوجاتے ہیں، میں نفسیاتی ہوجاتا ہوں"

خوبصورت موسیقی، دھن اور بولوں میں ایک حساس دل کی طرف سے سمجھنے والوں کے لیے یقیناً پیغام ہے اس امید کے ساتھ کہ

'شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات'

XS
SM
MD
LG