واشنگٹن جب افغانستان میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نئی حکمت عملی پر غور کر رہا ہے تو ایسے میں افغان حکومت کا کہنا ہے کہ اس جائزے میں کابل کے سکیورٹی منصوبہ کو بھی شامل کیا جانا چاہیئے جس کا مقصد وسیع پیمانے پر افغان سکیورٹی فورسز کو بہتر کرنا ہے۔
افغان وزارت دفاع کے ترجمان دولت وزیری نے ’وی اے او‘ کی افغان سروس کو بتایا کہ "اگر امریکہ وعدے کے مطابق ایک نئی حکمت عملی کا اعلان کرتا ہے اور اگر وہ ہمارے چار سالہ منصوبے کی حمایت کرتے ہیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ افغانستان کے پاس ایک ایسی فوج ہو گی جس پر ہر افغان انحصار کر سکتا ہے اور اسے اس پر فخر ہو گا۔ "
ٹرمپ انتظامیہ افغانستان سے متعلق امریکہ کی پالیسی کا جائزہ لے رہی ہے، جہاں امریکی فوجی دستے 15 سال سے زائد عرصے سے تعینات ہیں اور دوسری طرف افغان عہدیدار آئندہ کے اقدامات کے لیے مشاورت کر رہے ہیں۔
افغانستان میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں مدد اور افغان فوج کو تربیت فراہم کرنے کے لیے تقریباً 13 ہزار نیٹو فوجی افغانستان میں تعینات ہیں جن میں 8400 امریکی فوجی ہیں۔
افغانستان میں نیٹو فوج کے موجودہ کمانڈر امریکی جنرل جان نکلسن نے افغانستان میں مزید امریکی فوجی بھیجنے کی تجویز دی ہے تاکہ ان کے بقول طالبان جنگجوؤں اور داعش کے شدت پسندوں کے خلاف لڑائی میں 'تعطل" کو ختم کیا جا سکے۔
امریکہ کی فوج کے ترجمان نیوی کیپٹن بل سالوین نے بدھ کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "جنرل نکلسن نے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کی تجویز اعلیٰ عہدیداروں کو دے دی ہے اور اس سے متعلق فیصلہ واشنگٹن میں کیا جا رہا ہے۔"
افغانستان نے اپنی سیکورٹی فورسز کو بہتر کرنے کے لیے گزشتہ ماہ چار سالہ سکیورٹی منصوبہ کا اعلان کیا تاکہ طالبان اور داعش کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹا جا سکے۔
کابل کا کہنا ہے کہ اسے امریکہ اور نیٹو سے اپنے فوجیوں کو تربیت فراہم کرنے والے مزید ماہرین اور فوجی ساز و سامان کی ضرورت ہے۔
افغان منصوبہ کے تحت خصوصی فورسز کی تعداد کو 17 ہزار سے بڑھا کر دگنا کرنا اور ایک ڈویژن پر مشتمل خصوصی فورسز کو مزید بہتر کرنا ہے۔
دولت وزیری کے مطابق افغان فضائیہ کو بہت جلد امریکہ اور دیگر مغربی اتحادیوں سے تقریباً 200 ہیلی کاپٹر اور دیگر جہاز ملنے کی توقع ہے۔
افغان عہدیداروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے افغان فورسز کی تربیت، معاونت اور ساز و سامان کے لیے اضافی امداد کی فراہمی کے سبب طالبان اور داعش کے خلاف جنگ کا پلڑا افغانستان کے حق میں ہو جائے گا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انتہا پسندی کے خلاف جنگ ٹرمپ انتظامیہ کی ترجیح ہے جس کی وجہ سے واشنگٹن کابل کی مطالبات کو ماننے پر رضامند ہو سکتا ہے۔
افغان عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مطالبات کے حق میں واشنگٹن پر مسلسل زور دے رہے ہیں۔
واشنگٹن میں افغانستان کے سفیر حمداللہ محب نے وی او اے کو بتایا کہ "ہم ایک ایسی پالیسی چاہتے ہیں جو تبدیل نا ہو۔"