افغانستان کے دارالحکومت کابل میں منگل کے روز ایک دھماکہ ہوا جس میں حکام کے مطابق چار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
یہ دھماکہ سفارتی علاقے وزیر اکبر خان میں ہوا، جہاں بھاری پہرہ ہوتا ہے۔
صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اسپتال میں تین نعشیں اور 10 زخمیوں کو لایا گیا ہے۔
کابل میں پولیس کے ترجمان نے کہا ہے کہ بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ خودکش حملہ آور علاقے میں پیدل آیا تھا، تاہم حکام یہ تحقیقات بھی کر رہے ہیں کہ آیا علاقے میں پہلے سے تو نصب نہیں کیا گیا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ بظاہر گرین زون کے سفارتی علاقے میں داخل ہونے والے خودکش حملہ آور کی عمر 12 سال تھی۔
کڑے پہرے کے علاقے میں خودکش جیکٹ کے ساتھ حملہ آور کا داخلہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کوئی بھی جگہ عسکریت پسندوں کی پہنچ سے دور نہیں ہے۔
گرین زون میں 31 مئی کے بعد یہ پہلا حملہ ہے۔ گذشتہ حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد سینکڑوں میں تھی جس کے بعد حکام نے فوری طور پر گرین زون کی سیکیورٹی میں نمایاں اضافہ کر دیا تھا۔
داعش نے اس خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
خبررساں ادارے اے ایف پی نے مغربی سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ حملہ آور بظاہر افغان وزارت دفاع سے باہر نکلنے والے عہدے داروں کو ہدف بنانا چاہتا تھا۔
افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہمارے خیال میں حملہ آور کی عمر 13 یا 15 سال تھی۔ اس حملے میں کم از کم 4 افراد ہلاک اور ایک درجن سے زیادہ زخمی ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
وزارت دفاع کے ترجمان دولت وزیری نے میڈیا کو بتایا کہ حملہ آور پہلی چیک پوسٹ سے گذرنے میں کامیاب ہوگیا لیکن اسے دوسری چیک پوسٹ پر روک لیا گیا جہاں اس نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ حملہ آور کا ہدف کون تھا لیکن یہ دھماکہ وزارت دفاع کے خارجہ أمور کے دفتر کے قریب ہوا ۔
پچھلے ہفتے کابل میں ایک فوجی اکیڈمی کے نزدیک کار بم دھماکہ ہوا تھا جس میں 15 کیڈٹ ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے تھے۔ طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
اسی ہفتے کے دوران ایک خودکش بمبار نے کابل میں نمازیوں سے بھری ہوئی ایک شیعہ مسجد میں گھس کر خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا جس میں 50 کے لگ بھگ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔