جمعہ کے روز افغانستان کے دارالحکومت کابل میں درجنوں نوجوانوں نے پاکستان کی جانب سے افغانستان کے مشرقی صوبوں میں راکٹ حملوں کے خلاف ایک احتجاجی مارچ کیا۔
مظاہرین کا مؤقف تھا کہ پاکستان کی جانب سے حالیہ راکٹ حملے افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہیں۔
کابل کے شہری علاقوں میں ہونے والا یہ مظاہرہ افغان نوجوانوں کے ایک سرگرم ادارے نے منعقد کیا تھا۔
تنظیم کے سربراہ، امید وطن یار نے ’وائس آف امریکہ‘ کی افغان سروس کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان کا ادارہ اسلامی انتہا پسندی اور دہشت گرد گروپوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’میرے کے ادارے کو یقین ہے کہ افغانستان اور خطے میں بد امنی کی اصل جڑ پاکستان کی خفیہ ایجنسی، آئی ایس آئی ہے‘‘۔
رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اس ہفتے افغانستان کے صوبوں ننگرہار، قندھار اور پکتیہ میں بھی اسی طرح کے احتجاجی مارچ ہوئے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ بین الاقوامی کمیونٹی ان حملوں کے روک تھام کے لئے اقدامات کرے۔
پاکستان کی جانب سے ابھی تک ان احتجاجی مظاہروں سے متعلق کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ لیکن، پاکستان کا مؤقف یہ رہا ہے اس نے کبھی بھی افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی۔
پاکستان نے ملک میں حالیہ دہشت گرد حملوں کے بارے میں کہا ہے کہ ان کی منصوبہ بندی ’جماعت الاحرار‘ نے افغانستان میں کی تھی، جس کے بعد پاکستانی افواج نے سرحد پار اس تنظیم کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔
پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے ملکوں میں دہشت گردی کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرتے ہیں، جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان اکثر سیاسی اور سفارتی کشیدگی دیکھی گئی ہے، اور دونوں ہی ملک اس سے انکار کرتے ہیں کہ وہ شدت پسندی کی حمایت کرتے ہیں۔