رسائی کے لنکس

سپریم جوڈیشل کونسل کی تیسری سماعت، وکلا کا احتجاج


سپریم جوڈیشنل کونسل میں ریفرنسز کی سماعت کے موقع پر وکلا کا احتجاج، فائل فوٹو
سپریم جوڈیشنل کونسل میں ریفرنسز کی سماعت کے موقع پر وکلا کا احتجاج، فائل فوٹو

صدر پاکستان کی جانب سے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف بھیجے جانے والے ریفرنسز کی تیسری سماعت سپریم جوڈیشنل کونسل میں ہوئی جس میں اٹارنی جنرل انور منصور نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جواب کا جواب الجواب پیش کیا۔

کونسل کے اراکین اٹارنی جنرل کے جواب کا جائزہ لینے کے بعد حکم جاری کریں گے۔

تیسری سماعت کے موقع سپریم کورٹ کے احاطے میں وکلاء نے احتجاج کیا اور احتجاجی بینرز بھی آویزاں کیے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس پر بلوچستان بار کونسل، بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور کئی دوسری وکلاء تنظیموں نے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا۔ سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار ایسوسی ایشن نے یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا گیا تھا جس پر عمل کرتے ہوئے بیشتر عدالتوں میں وکلا پیش نہیں ہوئے اور مختلف شہروں میں اجتجاج بھی کیا گیا۔

سپریم کورٹ میں اجتجاج کے دوران سینئر وکیل یاسین آزاد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وکلا کے تمام گروپ اس معاملے پر متحد ہیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل سے درخواست ہے کہ اس ریفرنس کو رد کر دیں۔ وکلا نے ہمیشہ قانون اور اداروں کی بالا دستی کی بات کی ہے۔ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہئے جو ادارے کی آزادی میں رکاوٹ بنے۔ قانون اور سویلین بالادستی کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو وکلا مزاحمت کریں گے۔

سینئر وکیل علی احمد کرد نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل سے گزارش ہے ہمیں مجبور نہ کیا جائے۔ ہمیں اس بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ یہ ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے۔ ہم ادارے کی آزادی کی بات کرتے ہیں۔ آج پھر وکیلوں کو ٹیسٹ کیا جا رہا ہے۔ لیکن 2007 کے بعد آج بھی ہم کامیاب اور سرخرو ہوں گے۔ جمہور اور جمہوریت کے حقوق سلب کرنے والوں کو کچھ نہیں ملے گا۔

سینئر وکیل حامد خان نے کہا کہ خوشی ہے کہ وکلا عدلیہ کی آزادی کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ عدلیہ کی آزادی کے لیے وکلا کی لیڈر شپ اکھٹی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک بار آزاد نہیں ہو گی اس وقت تک عدلیہ آزاد نہیں ہو گی۔ امید کرتے ہیں سپریم جوڈیشل کونسل وکلا کی مشترکہ کوشش کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ریفرنس کو ختم کر دے گی۔

وکلا کا احتجاج کونسل کے اجلاس کے اختتام تک جاری رہا۔ اجلاس کے بعد فوری طور پر سپریم کورٹ کی طرف سے کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف فیض آباد دھرنا کیس میں ان کے فیصلے اور اس میں دیے گئے ریمارکس پر بعض اداروں کی طرف سے اعتراضات کیے گئے تھے اور نظرثانی کی اپیلیں دائر کی گئیں تھیں۔ تاہم جسٹس فائز عیسیٰ اپنے فیصلوں کے حوالے سے وکلا اور عام لوگوں میں بہت مقبول ہیں۔

فائز عیسیٰ اور کے کے آغا کے خلاف بیرون ملک جائیداد اپنے اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بلوچستان میں ایک بڑی جائیداد کے مالک ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس ریفرنس کی باقاعدہ سماعت سے قبل صدر عارف علوی کو دو خطوط بھی تحریر کیے جن میں اس ریفرنس کی بابت بات کی گئی اور کہا گیا کہ بیرون ملک جائیداد ان کے بچوں اور اہلیہ کی ہے جو ان کے زیرکفالت نہیں ہیں، لہذا اسے اثاثوں میں ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اپنے خط میں انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا تھا۔

XS
SM
MD
LG