رسائی کے لنکس

ابو غریب جیل میں قیدیوں سے بدسلوکی اور تشدد پر امریکی کانٹریکٹر کو چار کروڑ 20 لاکھ ڈالر ادا کرنے کا حکم


اس تصویر میں ابو غریب جیل کے احاطے میں ایک پنجرے میں بند ایک قیدی، امریکی فوجی سے بات کر رہا ہے۔ بغداد کے مضافات میں واقع اس جیل کے اسیروں سے بدسلوکیوں اور تشدد کی سینکڑوں تصاویر وائرل ہوئیں۔ 15 اپریل 2004
اس تصویر میں ابو غریب جیل کے احاطے میں ایک پنجرے میں بند ایک قیدی، امریکی فوجی سے بات کر رہا ہے۔ بغداد کے مضافات میں واقع اس جیل کے اسیروں سے بدسلوکیوں اور تشدد کی سینکڑوں تصاویر وائرل ہوئیں۔ 15 اپریل 2004
  • 20 سال قبل عراق کی رسوائے زمانہ ابو غریب جیل میں امریکی تفیش کاروں نے قیدیوں سے بدسلوکی اور تشدد کا ارتکاب کیا تھا۔
  • کئی سال قبل قیدیوں سے بدسلوکی کی تصاویر کی انٹرنیٹ پر اشاعت نے دنیا کو چونکا دیا تھا۔
  • ابو غریب جیل میں ایک امریکی کانٹریکٹر سی اے سی آئی کے اہل کار تعینات تھے جن پر قیدیوں سے بدسلوکی کا الزام ہے۔
  • ورجینیا کی ایک جیوری نے الزام ثابت ہونے پر مقدمہ دائر کرنے والے تین سابق قیدیوں کو چار کروڑ 10 لاکھ ڈالر ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
  • کانٹریکٹر کمپنی نے کہا ہے کہ وہ فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔
  • جیل میں قیدیوں پر تشدد کے علاوہ انہیں ذلت آمیز سلوک کا نشانہ بنانے، بجلی کے جھٹکے لگانے اور ان پر کتے چھوڑنے کے بھی الزامات ہیں۔

ورجینیا کی ایک جیوری نےریاست کے ایک فوجی کانٹریکٹر کو دو عشرے قبل عراق کی رسوائے زمانہ جیل ابو غریب میں تشدد اور بدسلوکی کا ذمہ دار ٹہراتے ہوئے تین سابق قیدیوں کو چار کروڑ 20 لاکھ ڈالر ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔

آٹھ افراد پر مشتمل جیوری کا یہ فیصلہ اس سال کے شروع میں ایک اور جیوری کے اس بارے میں اتفاق نہ ہونے کے بعد آیا کہ آیا ورجینیا کے شہر ریسٹن میں قائم سی اے سی آئی(CACI) کو اس کے سویلین تفتیش کاروں کے کام کا ذمہ دار ٹہرایا جانا چاہیے جنہوں نے 2003 سے 2004 تک امریکی فوج کے ساتھ کام کیا تھا۔

جیوری نے مقدمہ دائر کرنے والوں، سہیل الشمری، صالح العجیلی اور اسعد الزوبی میں سے ہر ایک کو 30 لاکھ ڈالر زرتلافی اور گیارہ لاکھ ڈالر فی کس جیل میں ڈالنے کی پاداش میں ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔

تینوں نے اپنی شہادت میں بتایا کہ انہیں جیل میں مار پیٹ، جنسی تشدد، جبری عریاں کیے جانے اور دیگر ظالمانہ سلوک کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

انہوں نے یہ الزام نہیں لگایا کہ سی اے سی آئی کے تفتیش کاروں نے اپنے طور پر بدسلوکیاں کیں بلکہ یہ کہا کہ سی اے سی آئی ان کارروائیوں میں اس لیے ملوث ہے کیونکہ اس کے تفتیش کاروں نے ملٹری پولیس کے ساتھ مل کر پوچھ گچھ کے لیے سخت رویہ اختیار کیا۔

سی اے سی آئی نے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کمپنی اس فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں سی اے سی آئی کے کسی ملازم پر مجرمانہ، سول یا انتظامی نوعیت کا کبھی بھی الزام نہیں لگایا گیا۔ اور یہ کہ کمپنی کے تفتیش کاروں نے ان پریشان کن کارروائیوں میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی ہمارا کوئی ملازم اس کا ذمہ دار تھا۔

سینٹر فار کانسٹیٹیوشنل رائٹس کے وکیل بحر اعظمی، جنہوں نے مدعیان کی طرف سے مقدمہ دائر کیا تھا، اس فیصلے کو انصاف اور احتساب کا ایک اہم قدم قرار دیا۔

اعظمی نے کہا کہ چار کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی رقم، مدعیان کی طرف سے طلب کی جانے والی تلافی سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہے۔ اور یہ رقم تین کروڑ 10 لاکھ ڈالر کی اس رقم سے زیادہ ہے جو مقدمہ دائر کرنے والوں کے مطابق سی اے سی آئی کو ابو غریب جیل میں اس کے تفتیش کاروں کے لیے ادا کی گئی تھی۔

ابوغریب جیل کی اس تصویر میں ایک قیدی کو ڈبے پر کھڑا کرنے اور سیاہ لباس پہنائے جانے کے بعد اس کے ہاتھوں سے تار جوڑ کر بجلی کے جھٹکے لگائے جا رہے ہیں۔ اس تصویر کا تعلق سن 2003 کے آخری حصے سے ہے۔
ابوغریب جیل کی اس تصویر میں ایک قیدی کو ڈبے پر کھڑا کرنے اور سیاہ لباس پہنائے جانے کے بعد اس کے ہاتھوں سے تار جوڑ کر بجلی کے جھٹکے لگائے جا رہے ہیں۔ اس تصویر کا تعلق سن 2003 کے آخری حصے سے ہے۔

العجیلی نے، جو صحافی بھی ہیں، اپنے تحریری بیان میں کہا ہے کہ آج کا دن میرے لیے اور انصاف کے لیے ایک بڑا دن ہے۔ میں نے اس دن کے لیے طویل عرصے تک انتظار کیا۔ یہ اس کیس میں ایک کارپوریشن کے خلاف تین افراد کی فتح نہیں ہے بلکہ یہ فتح ہر اس شخص کے لیے ایک روشنی ہے جس پر ظلم ہوا اور یہ ہر اس کمپنی یا کانٹریکٹر کے لیے وارننگ ہے جو مختلف قسم کے تشدد اور بد سلوکیوں پر مبنی کارروائیاں کرتے ہیں۔

العجیلی نے دونوں بار مقدمے میں اپنی گواہی دینے کے لیے امریکہ کا سفر کیا، جب کہ دیگر دو مدعیان نے عراق سے ویڈیو لنک کے ذریعے گواہی دی۔

ایسا پہلی بار ہوا ہے جس میں کسی امریکی جیوری نے 20 برس کے دوران ابوغریب جیل میں قید کاٹنے والے زندہ افراد کی طرف سے دائر کیے جانے والے کیس کے دو بار کے ٹرائل سنے۔

چند سال پہلے ابو غریب جیل کے قیدیوں سے بدسلوکی پر مبنی انٹرنیٹ پر آنے والی تصاویر نے دنیا کو چونکا دیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکی فوج نے عراق پر قبضہ کیا تھا۔

تاہم ابوغریب سے باہر نکلنے والی اور دنیا بھر کے میڈیا پر دکھائی جانے والی رسوا کن تصاویر میں سے ان تینوں مدعیاں کی کوئی تصویر شامل نہیں تھی۔

تاہم الشمری نے اپنی گواہی میں بتایا کہ جیل میں دو ماہ کی قید کے دوان انہیں مارپیٹ کے ساتھ ساتھ جنسی حملوں کا ہدف بھی بنایا گیا۔ انہیں بجلی کے جھٹکے لگائے گئے اور گلے میں رسی باندھ کر جیل کے اندر گھیسٹا گیا۔

العجیلی نے بتایا انہیں شدید تناؤ میں رکھا گیا جس سے انہیں سیاہ رنگ کی الٹیاں آنے لگیں۔ انہیں سونے نہیں دیا جاتا تھا اور انہیں خواتین کا زیرجامہ پہننے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ انہیں ڈرانے کے لیے کتے چھوڑے جاتے تھے۔

سی اے سی آئی کی جانب سے دلائل میں یہ کہ گیا ان کی کمپنی زیر حراست افراد کے ساتھ بدسلوکیوں میں ملوث نہیں ہے۔ تینوں مدعیان کے ساتھ اس کے تفتیش کاروں کا تعلق انتہائی کم رہا۔ بنیادی طور پر سی اے سی آئی کا موقف یہ رہا کہ جیل میں ہونے والی بدسلوکیوں کی ذمہ دار حکومت ہے۔

یہ مقدمہ دو مختلف جیوریوں نے سنا۔ اور انہوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ تفتیش کاروں کی جانب سے بدسلوکیوں کی ذمہ داری کانٹریکٹر یا فوج کس پر عائد ہوتی ہے۔ پہلی جیوری کسی اتفاق رائے پر نہیں پہنچ سکی، جب کہ دوسری جیوری نے سی اے سی آئی کو ذمہ دار قرار دے دیا۔

یہ مقدمہ سب سے پہلے 2008 میں دائر کیا گیا تھا۔ لیکن 15 سال کی قانونی لڑائیوں اور سی اے آئی اے کی جانب سے مقدمے کو خارج کرنے کی متعدد کوششوں کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی۔

مقدمے میں پیش کیے جانے والے شواہد میں فوج کے دو ریٹائرڈ جنرلوں کی رپورٹس بھی شامل تھیں جنہوں نے بدسلوکی کے واقعات کی دستاویزات کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا اور ان میں سی اے سی آئی کے کئی تفتیش کار ملوث پائے گئے۔

(اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)

فورم

XS
SM
MD
LG