رسائی کے لنکس

جسٹس بابر ستار کا مبینہ خط: 'پہلی بار ایجنسیز کی مداخلت پر فل اسٹاپ لگانے کی کوشش کی گئی'


 جسٹس بابر ستار کا مبینہ خط سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔
جسٹس بابر ستار کا مبینہ خط سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس بابر ستار کا مبینہ خط سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔
  • خط میں جسٹس بابر ستار کا کہنا ہے کہ اُنہیں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اعلٰی افسران کی جانب سے آڈیو لیکس کیس سے 'پیچھے ہٹنے' کا کہا گیا ہے۔
  • حکومتی وزرا اور اٹارنی جنرل نے اس خط کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیکیورٹی ادارے براہِ راست کسی جج سے رابطہ نہیں کر سکتے۔
  • عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان موجودہ تناؤ کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ججز اس مداخلت پر بول پڑے ہیں: سینئر قانون دان عابد ساقی
  • پاکستان کی تاریخ رہی ہے کہ ججز اپنے اندر موجود خرابیوں سے صرفِ نظر کرتے رہے ہیں: قانون دان امان اللہ کنرانی

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار کی جانب سے چیف جسٹس عامر فاروق کو لکھے گئے خط کا معاملہ پاکستان کے سیاسی اور قانونی حلقوں میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں عدلیہ اور انٹیلی جینس اداروں کے درمیان تلخی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

عدلیہ کی طرف سے عائد الزامات پر حکومت کے ساتھ ساتھ سیاست دان بھی انٹیلی جینس اداروں کے دفاع میں سامنے آ رہے ہیں۔

مذکورہ خط میں جسٹس بابر ستار نے آڈیو لیکس کیس میں خود پر دباؤ ڈالے جانے کا کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ٹاپ آفیشلز کی طرف سے پیغام ملا کہ اس کیس سے 'پیچھے ہٹ جاؤ۔'

اس معاملے پر اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان کا کہنا ہے کہ کسی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ افسر نے براہ راست رابطہ نہیں کیا۔ صرف ان کیمرہ بریفنگ کا کہا گیا تھا۔

وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ خط لکھنے کی روایت اب ختم ہونی چاہیے اگر اٹارنی جنرل نے ان کیمرا بریفنگ کی استدعا کی تھی تو اس میں کوئی دھمکی نہیں ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان موجودہ تناؤ کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ججز اب کسی خوف کا شکار ہوئے بغیر بول رہے ہیں۔

دوسری جانب سابق وفاقی وزیر اور سینیٹر فیصل واوڈا بھی انٹیلی جینس اداروں کی حمایت میں سامنے آئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اب الزام لگانے سے کام نہیں چلے گا، بار بار انٹیلی جینس اداروں کا نام لیا جا رہا ہے۔ اب اگر کوئی پگڑی اچھالے گا تو پگڑی کی فٹ بال بنائیں گے۔

پاکستان بار ایسویسی ایشن اور دیگر وکلا کی تنظیموں کی طرف سے جسٹس بابر ستار کے نئے خط کے حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ البتہ مارچ میں چھ ججز کی طرف سے لکھے گئے خط کے بعد وکلا تنظیموں نے ججز کی بھرپور حمایت کی تھی۔

'تاریخ میں پہلی بار ججز مداخلت پر بول پڑے ہیں'

پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چئیرمین عابد ساقی کہتے ہیں کہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان موجودہ تناؤ کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ججز اس مداخلت پر بول پڑے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ججز نے پہلی بار اپنے ساتھ ہونے والے سلوک اور طاقت ور اداروں کے کردار کے بارے میں بتایا ہے۔

فیصل واوڈا اور حکومتی وزرا کے بیانات پر عابد ساقی کا کہنا تھا کہ اس وقت حکومت اور انٹیلی جینس ادارے ایک ہی پیج پر ہیں۔

اُن کے بقول ایجنسیز لگاتار مداخلت کی عادی رہی ہیں اور پہلی مرتبہ کسی نے 'فل اسٹاپ' لگانے کی کوشش کی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ کوشش بھی نہ ہوتی اگر انٹیلی جینس ادارے ججز کے گھروں تک نہ پہنچتے۔ ججز کے بیڈروم میں کیمرے لگائے جائیں اور وہ پھر بات بھی نہ کریں؟

عابد ساقی کا کہنا تھا کہ ججز پاکستانی عوام کی جنگ لڑ رہے ہیں کسی بھی سرکاری ادارے کو ایسے مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ الیکشن سے پہلے ایجنسیز نے جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ الیکشن کے بعد آئین اور قانون کے ساتھ جو ہوا وہ بھی سامنے ہے۔ اب عدلیہ کے ساتھ جو ہو رہا تھا اس پر ان کا بولنا بنتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ استحصال پر مبنی یہ نظام اب ایکسپوز ہو رہا ہے۔ عدلیہ کی تاریخ کو درگزر نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن بعض ایسے ججز جو حقائق پر بات کر رہے ہیں انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

عابد ساقی کا کہنا تھا کہ اس وقت جو ججز کام کر رہے ہیں ان کی ایمان داری پر کوئی شک نہیں ہے لہذا ان ججز کی شکایات اور باتوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

'عدلیہ خود احتسابی کرے گی تو احتساب کر سکے گی'

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی کہتے ہیں کہ عدلیہ سب سے پہلے خود احتسابی کا عمل شروع کرے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ رہی ہے کہ ججز اپنے اندر موجود خرابیوں سے صرفِ نظر کرتے رہے ہیں۔

اُن کے بقول جو جج صاحبان آئین سے ماورا مقرر ہوئے ہیں، وہ گھر چلے جائیں اور جو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مزدور کی اجرت سے زائد تنخواہ و مراعات لیتے ہیں واپس کر دیں۔

امان اللہ کنرانی کا کہنا تھا کہ اگر عدلیہ ریاستی اداروں کی سہولت کاری میں شریک ہو تو ان سے اداروں کی مداخلت کو روکنے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

حکومت کا ردِعمل

موجودہ تناؤ کی صورتِ حال میں حکومت کی طرف سے انٹیلی جینس اداروں کا دفاع کیا جا رہا ہے۔

منگل کو وفاقی وزیر اطلاعات اور وزیر قانون نے نیوز کانفرنس میں کہا کہ اس ملک میں ایجنسیاں 'پنچنگ بیگ' بن چکی ہیں، ایجنسیوں کا مسئلہ ہے کہ وہ نیوز کانفرنس کر کے مؤقف نہیں دے سکتے۔

ساتھ والے کمرے میں بیٹھے چیف جسٹس کو نہیں کہا جاتا کہ میری بات سنیں بلکہ انہیں خط لکھ کر میڈیا اور سوشل میڈیا پر لیک کرا دیا جاتا ہے۔

دوسری جانب پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی طرف سے جسٹس بابر ستار کی حمایت بھی کی جا رہی ہے۔

پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن نے اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ جسٹس بابر ستار کی طرف سے مداخلت کے بارے میں بتانے کے بعد انہیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG