رسائی کے لنکس

پاکستان میں مقیم افغان صحافی: 'مالی حالت ایسی نہیں کہ اسلام آباد میں رہ سکیں'


 افغان صحافی وقتاً فوقتاً احتجاج بھی کرتے رہتے ہیں۔
افغان صحافی وقتاً فوقتاً احتجاج بھی کرتے رہتے ہیں۔

  • افغان صحافیوں کے لیے پاکستان کا ویزہ حاصل کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
  • غیر قانونی قرار دے کر انہیں واپس افغانستان بھجوانے کا خطرہ بھی ہر وقت سروں پر منڈلاتا رہتا ہے: افغان صحافی فرشتہ عزیزی
  • پاکستان سے مختلف ملکی اور غیر ملکی تنظیموں کے تعاون سے متعدد صحافی تیسرے ممالک منتقل ہونے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔
  • پاکستان میں 170 افغان صحافیوں کو اندراج ہوا ہے جن میں 50 خواتین صحافی شامل ہیں: فریڈم نیٹ ورک
  • ان صحافیوں کی مالی حالت ایسی نہیں ہے کہ وہ اسلام آباد جیسے مہنگے شہر میں رہ سکیں: ایگزیکٹو ڈائریکٹر فریڈم نیٹ ورک اقبال خٹک

پشاور -- "نصف سے زیادہ صحافیوں کے پاس پاکستان کا ویزہ بھی نہیں ہے۔ یہ جان بچا کر افغانستان سے نکلے تھے۔ لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ یہاں نہ تو کام مل رہا ہے اور نہ ہی عالمی اداروں کی طرف سے کوئی امداد مل رہی ہے۔"

یہ کہنا ہے افغان صحافی فرشتہ عزیزی کا جو حال ہی میں اسلام آباد میں ہونے والے ایک مباحثے کے دوران پاکستان میں مقیم افغان صحافیوں کی مشکلات کا ذکر کر رہی تھیں۔

فرشتہ عزیزی کا کہنا تھا کہ افغان صحافی کو کسی تیسرے ملک جانے کے لیے پاکستان کا ویزہ درکار ہوتا ہے جو ان کے پاس نہیں ہے کیوں کہ یہ 2021 میں افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد عجلت میں افغانستان سے نکلے تھے۔

اُن کے بقول افغان صحافیوں کے لیے پاکستان کا ویزہ حاصل کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اور یہاں غیر قانونی قرار دے کر انہیں واپس افغانستان بھجوانے کا خطرہ بھی ہر وقت سروں پر منڈلاتا رہتا ہے۔

واضح رہے کہ اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد عام افغان باشندوں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں افغان صحافی بھی پاکستان آ گئے تھے۔

ان افراد کا مؤقف ہے کہ طالبان حکومت کی سخت گیر پالیسیوں اور میڈیا کے خلاف کریک ڈاؤن کے خوف سے وہ پاکستان آئے تھے تاکہ یہاں سے امریکہ، کینیڈا یا یورپی ممالک جا سکیں۔ بہت سے صحافی اس مقصد میں کامیاب بھی ہوئے ہیں، لیکن اب بھی درجنوں افغان صحافی کسی تیسرے ملک جانے کے منتظر ہیں۔

چند ہفتے قبل پاکستان کے راستے جرمنی منتقل ہونے والے ایک افغان صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد درجنوں صحافیوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

اُن کے بقول کئی صحافی پراسرار حملوں میں جان کی بازی گنوا بیٹھے ہیں۔ لہذٰا افغانستان میں اس وقت میڈیا ورکر کے لیے کام کرنا تقریباً ناممکن ہے۔

صحافیوں کی تنظیم 'رپورٹر ود آؤٹ بارڈرز' (آر ایس ایف) کے مطابق طالبان کے آنے کے بعد افغانستان میں کام کرنے والے 12 ہزار رپورٹرز میں سے دو تہائی نے بطور صحافی کام کرنا چھوڑ دیا۔ 10 میں سے آٹھ خواتین صحافیوں کو بھی اپنا یہ پیشہ ترک کرنا پڑا۔

پاکستان میں مقیم صحافیوں کی مشکلات

لیکن پاکستان میں عارضی طور پر پناہ لینے والے ان افغان صحافیوں کے لیے زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ ان صحافیوں کی اکثریت اسلام آباد اور پشاور میں مقیم ہے۔ تاہم پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ذرائع آمدن نہ ہونے کی وجہ سے یہ صحافی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔

صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظم 'فریڈم نیٹ ورک' کے پاس ایسے 170 افغان صحافیوں کو اندراج ہوا ہے جن میں 50 خواتین صحافی شامل ہیں۔

پاکستان سے مختلف ملکی اور غیر ملکی تنظیموں کے تعاون سے متعدد صحافی تیسرے ممالک منتقل ہونے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔

فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک کہتے ہیں کہ افغان صحافیوں کو پاکستان میں بے شمار مشکلات کا سامنا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اقبال خٹک کا کہنا تھا کہ ان صحافیوں کو ورک پرمٹ نہیں مل رہا ہے جس کی وجہ سے ان کی مالی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اُن کے بقول بعض افغان صحافیوں کی گزر بسر بیرون ملک مقیم ان کے رشتے داروں کی جانب سے بھجوائی گئی رقوم سے ہو رہی ہے، لیکن اس سے ان کے اخراجات پورے نہیں ہو رہے۔

اقبال خٹک کا کہنا ہے کہ ان کے تین بڑے مسائل میں پاکستان کے لیے ویزہ، تیسرے ملک جانے کے لیے ویزے میں تاخیر اور یہاں بچوں کی تعلیم اور صحت کی سہولیات کا حصول ہے۔

اُن کے بقول یہ لوگ روزمرہ کے اخراجات بھی برداشت نہیں کر سکتے اور ان کے بچوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔

اقبال خٹک نے مزید کہا کہ ان کی تنظیم حکومتِ پاکستان، اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ رابطے میں ہے کہ کس طرح ان افغان صحافیوں کی مدد کی جا سکتی ہے۔

اقبال خٹک کے بقول ان صحافیوں کی مالی حالت ایسی نہیں ہے کہ وہ اسلام آباد جیسے مہنگے شہر میں رہ سکیں۔

فریڈم نیٹ ورک کے زیرِ اہتمام افغان صحافیوں کی مشکلات سے متعلق ہونے والے مباحثے میں حکومتِ پاکستان، انسانی حقوق کی تنظیموں، اقوامِ متحدہ اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ان صحافیوں کی مدد کرے۔

پاکستان سے کسی تیسرے ملک جانے کے لیے افغان صحافیوں کے پاس پاکستانی ویزہ ہونا ضروری ہے تاکہ پاکستان سے ان کا 'ایگزٹ' ہو سکے۔

لیکن جلدی میں افغانستان سے نکلنے والے افغان صحافیوں میں اکثریت بغیر ویزے کے پاکستان پہنچ چکی تھی۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس نومبر میں پاکستان کی نگراں حکومت نے اعلان کیا تھا کہ ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم تارکینِ وطن کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔

اس اعلان کے بعد ہزاروں افغان مہاجرین واپس افغانستان چلے گئے ہیں۔ جب کہ دستاویزات نہ رکھنے والے افغان صحافیوں کو بھی ملک بدری کا سامنا ہے۔

حکومتِ پاکستان کی جانب سے ان صحافیوں کے بارے میں کسی واضح پالیسی کا اعلان نہیں کیا گیا۔ تاہم 2021 میں ان صحافیوں کی پاکستان آمد کے موقع پر اس وقت کی حکومت نے ان صحافیوں کے ساتھ تعاون اور ویزہ قوانین میں نرمی کا اعلان کیا تھا۔

اقبال خٹک کے مطابق اسلام آباد اور پشاور میں مقیم ان صحافیوں سے حکومت نرمی برت رہی ہے جب کہ ان صحافیوں کو زبردستی افغانستان بھیجنے کا بھی کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔

دوسری جانب بعض افغان صحافیوں نے اُنہیں بے دخل نہ کرنے سے متعلق پاکستان عدالتوں میں درخواستیں بھی دائر کر رکھی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG