ایک معروف پاکستانی تجزیہ کار نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ داعش کے خلاف جنگ آسان نہیں ہوگی۔ اس لیے، بقول اُن کے، ’وہ باقاعدہ طور پر کسی ایک جگہ منظم نہیں، اور اس کی کوئی باضابطہ تنصیبات بھی موجود نہیں‘۔
ڈاکٹر فاروق حسنات نے اردو سروس کے پروگرام جہاں رنگ میں براہِ راست شرکت کرتے ہوئے کہا کہ داعش کے دہشت گرد، اُن کے اپنے تجزیے کے مطابق، عام لوگوں میں موجود ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس گروپ کے خلاف مربوط اور مؤثر انٹیلی جنس نیٹ ورک قائم کیا جائے۔ اِس کے علاوہ معاشرے کے مختلف طبقوں کو بھی اس جنگ میں شریک کرنا ضروری ہے۔
اسلام آباد میں قائم اسٹریٹیجک ویژن انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ظفر چیمہ نے اس جانب توجہ دلائی کہ یہ ضروری ہے کہ انتہاپسندی کے عوامل کا پتا چلایا جائے اور ان کا تدارک کیا جائے۔
اُنھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ داعش پہلے ہی افغانستان میں موجود ہے، اور بقول اُن کے، ’پاکستان بھی دور نہیں ہے‘۔
اُن کے خیال میں یہ دہشت گرد گروپ لسانی اور فرقہ ورانہ اختلافات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
ایک اور تجزیہ کار اور ’امریکہ ٹوگیدر‘ نامی تنظیم کے سربراہ، مائیک غوث نے اس بات پر زور دیا کہ تمام کمیونٹی کو داعش کے خلاف آگے آنے کی ضرورت ہے۔
تفصیل کے لیے مندرجہ ذیل آڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے: