افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کے ساتھ یک طرفہ جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے سیکیورٹی اداروں کو اپنی کارروائیاں دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دے دی ہے؛ اور افغان امور کے ماہرین کے اس بارے میں مختلف خیالات ہیں۔
افغان صحافی اور تجزیہ کار انیس الرحمان نے 'وائس آف امریکہ' کے پروگرام 'جہاں رنگ' میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عید کے موقع پر جو تین روزہ جنگ بندی ہوئی تھی۔ اس سے لوگ بہت پر امید تھے اور جب صدر غنی نے اس جنگ بندی میں توسیع کا اعلان کیا تو لوگوں کی امیدیں اور بھی بڑھ گئیں۔ لیکن، طالبان نے اسکا مثبت جواب نہیں دیا اور انہوں نے سیکیورٹی فورسز اور عام لوگوں پر حملے شروع کر دیئے۔
انیس الرحمان نے کہا کہ ''انہوں نے اسکا مثبت جواب کیوں نہیں دیا؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے''۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ ''پس پردہ رابطے اب بھی جاری ہیں۔ شاید تعمیر کی کوئی صورت نکلے''۔
افغان امور کے ایک اور ماہر میر ویس افغان نے بتایا کہ ''طالبان جنگ بندی کے لئے کیسے تیار ہو سکتے تھے، کیونکہ گزشتہ سترہ اٹھارہ برس سے حملوں کی زد میں ہیں اور حکومت کے پاس بھی کوئی چارہ کار نہ تھا کہ وہ یک طرفہ جنگ بندی کو ختم کردے؛ کیونکہ، طالبان نے حکومت کی جنگ بندی کی پیشکش قبول نہیں کی تھی۔ اور حکومت کو دنیا کو بتانا تھا کہ وہ امن کا راستہ اختیار کرنا چاہتی ہے''۔
پروگرام میں گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے انیس الرحمان نے کہا: