اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال دنیا بھر 80 صحافی ہلاک ہوئے، 348 جیلوں میں بند ہیں جب کہ 60 کے لگ بھگ یرغمال بنائے گئے ہیں۔
صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز یعنی آر ایس ایف کی جانب سے 18 دسمبر کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں صحافیوں کو ایک ایسی سطح کے مخالفانہ رویوں کا سامنا ہے جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر موجود نہیں ہے۔
آر ایس ایف کی رپورٹ کی تمام درجہ بندیوں میں شامل صحافیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ درجہ بندی، قتل، قید اور اغوا کے طور پر کی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صحافیوں کی جبری گمشدیوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور سن 2018 میں رپورٹرز کو جس تشدد اور سفاکانہ رویوں کا سامنا رہا، اس سے پہلے اس کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔
اس سال کے دوران قتل ہونے والے صحافیوں کی تعداد میں 8 فی صد اضافے سے یہ تعداد 80 ہو گئی جب کہ اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران قتل کیے گئے صحافیوں کی شرح 2017 کے مقابلے میں 15 فی صد بڑھی۔ پچھلے سال قتل ہونے والے پروفیشنل صحافیوں کی تعداد 55 تھی جو اس سال 63 تک جا پہنچی۔
اس سال جس صحافی کے قتل کے بارے میں سب سے زیادہ خبریں اور رپورٹس شائع ہوئیں وہ سعودی جرنلسٹ جمال خشوگی تھے جنہیں استنبول میں سعودی قونصلیٹ کے اندر بے رحمی سے قتل کر کے نعش غائب کر دی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس سال قتل ہونے والے نصف سے زیادہ صحافیوں کو ہلاک کرنے سے پہلے سفاکانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
سن 2018 میں افغانستان صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ ہلاکت خیز ملک ثابت ہوا جہاں 15 صحافیوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اس فہرست میں دوسرے نمبر پر شام ہے جہاں 11 صحافی قتل ہوئے اور تیسرے نمبر پر میکسیکو ہے جہاں 7 پروفیشنل صحافی اور 2 سیٹزن جرنلسٹس قتل ہوئے۔
میکسیکو جنگ کے زون سے باہر ایک ایسا ملک ہے جہاں صحافیوں کی ہلاکتوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
اس سال دنیا بھر میں قید کیے گئے صحافیوں کی تعداد 348 رہی جو پچھلے سال کے مقابلے میں 22 زیادہ ہے۔ 2017 میں زیر حراست صحافیوں کی تعداد 326 تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جیلوں میں بند نصف سے زیادہ صحافیوں کا تعلق دنیا کے محض پانچ ملکوں سے ہے جن میں چین، ایران، سعودی عرب، مصر اور ترکی شامل ہیں۔ سب سے زیادہ قیدی چین کی جیلوں میں بند ہیں جن کی تعداد 60 ہے۔
اس وقت تک اغوا کیے گئے صحافیوں کی تعداد 60 ہے۔ یہ تعداد پچھلے سال کے 54 کے مقابلے میں 11 فی صد زیادہ ہے۔ ایک صحافی کے سوا باقی تمام صحافیوں کو مشرق وسطی کے تین ملکوں شام، عراق اور یمن میں یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے۔یرغمال بنائے گئے صحافیوں میں 6 غیر ملکی جرنلسٹس بھی شامل ہیں۔
اگرچہ عراق اور شام میں داعش کو شکست ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود ماسوائے جاپان کے صحافی جوم پی یاسودا کے، جسے تین سال کے بعد شام سے رہا کر دیا گیا تھا، باقی صحافیوں کے متعلق کچھ پتا نہیں ہے کہ وہ کس حال میں ہیں اور یہ کہ آیا وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز 1995 سے دنیا بھر میں صحافیوں کے خلاف تشدد، قتل اور سفاکانہ سلوک کے بارے میں اعداد و شمار سامنے لا رہا ہے۔ یہ گروپ اپنی رپورٹ میں دنیا کے 180 ملکوں میں صحافیوں کے کام کے لیے حالات و عوامل کی تحت درجہ بندی کرتا ہے۔
سن 2018 کی درجہ بندی کے لحاظ سے صحافیوں کے لیے سب سے محفوظ ملک ناروے ہے جب کہ اس فہرست میں دوسرا نمبر سویڈن اور تیسرا نیدر لینڈز کا ہے۔
اس فہرست کے آخری نمبر پر شمالی کوریا ہے۔ جب کہ اس سے ایک درجہ اوپر 179 پر ارٹیریا اور 178 پر ترکمانستان ہے۔
پاکستان کا شمار بھی صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی تازہ فہرست میں پاکستان کو 139 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ پاکستان میں اس سال 3 صحافی قتل ہوئے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں صحافیوں کو حکومتی اداروں اور مختلف گروہوں کی جانب سے بھی جبر اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کے لیے اپنی پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی آسان نہیں ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت میں بھی صحافیوں کے لیے زمین تنگ ہو رہی ہے۔ اس سال بھارت میں 6 صحافی قتل ہوئے اور ان کے لیے فرائض کی ادائیگی کے حالات میں مزید ابتری آئی جس کے بعد اب بھارت کی رینکنگ 138 ہو گئی ہے۔
اگرچہ افغانستان میں اس سال مجموعی طور پر 16 صحافی قتل ہوئے لیکن صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملکوں کی درجہ بندی میں اس کا مقام پاکستان اور بھارت سے بہتر ہے اور اس کی رینکنگ 118 ہے کیونکہ وہاں صحافیوں کے لیے دیگر حالات ان کے مقابلے میں بہتر ہیں۔
چین اس فہرست میں 176 ویں نمبر پر ہے۔ سن 2018 میں وہاں کسی صحافی کا قتل نہیں ہوا لیکن وہاں کے حالات صحافیوں کے آزادانہ کام کے لیے ساز گار نہیں ہیں۔