صحافیوں کی عالمی تنظیموں نے حکومت پاکستان سے سندھ کے ضلع میرپور خاص میں روزنامہ ’جنگ‘ سے منسلک صحافی زبیر جاوید کے 13 سال قبل ہونے والے قتل کی دوبارہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
میرپور خاص کی تحصیل جھڈو سے تعلق رکھنے والے زبیر مجاہد کو سیٹلائٹ ٹاؤن کی حدود میں واقع چاندنی چوک پر نامعلوم حملہ آوروں نے 23 نومبر 2007 کو اس وقت گولی ماردی تھی جب وہ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ موٹرسائیکل پر اپنے گھر جا رہے تھے۔
میرپور خاص پولیس نے زبیر مجاہد کے قتل کی تفتیش کی لیکن وہ کسی ملزم کی شناخت کرنے میں ناکام رہی۔
صحافی تنظیموں کا کہنا ہے کہ قتل کو 13 سال ہو گئے ہیں لیکن قاتل اب بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔
اس واقعے کے متعلق بین الاقوامی صحافی تنظمیوں ’فری پریس ان لمیٹڈ‘ (ایف پی یو)، ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ (سی پی جے) اور ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ (آرایس ایف) کے اشتراک سے شروع کیے گئے ’اے سیفر ورلڈ فار ٹرتھ‘ نامی منصوبے کے تحت ایک تحقیقی رپورٹ مرتب کی گئی ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحقیق کرنے والی ٹیم نے پولیس کی سرکاری فائلوں کا جائزہ لیا اور 25 گواہوں کے انٹرویوز بھی کیے جس کا مقصد صحافی زبیر مجاہد کو انصاف دلانے کے لیے نئے ثبوت تلاش کرنا تھا۔
رپورٹ کے مطابق ان تحقیقات میں زبیر مجاہد کے قتل سے پہلے کی تحریروں کا ایک تجزیہ اور ان کی خبروں پر ملنے والی دھمکیاں کا جائزہ بھی شامل ہے۔
تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ زبیر مجاہد نے شہری پر پولیس کے تشدد کے ایک واقعے کی رپورٹنگ کی تھی۔
رپورٹ کے شریک مصنف عادل جواد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس رپورٹ پر چیف جسٹس پاکستان نے ازخود نوٹس لیا اور پولیس اہلکاروں اور بعض افسران کے خلاف تفتیش شروع ہوئی تھی۔
عادل جواد نے بتایا کہ اس خبر پر ہونے والی کارروائی کے نتیجے میں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر عبداللہ شیخ کو عہدے سے ہٹایا گیا جب کہ 10 پولیس اہلکاروں کو تقریباََ دو سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی گزارنا پڑے۔
ان کا کہنا ہے کہ شہری پر پولیس کے تشدد کے اس واقعے کی رپورٹنگ پر زبیر مجاہد کو بعض پولیس حکام نے مبینہ طور پر دھمکیاں دی تھیں اور یہ سلسلہ ان کے قتل سے چند روز پہلے تک جاری رہا۔
مقتول زبیر مجاہد کے بیٹے کے مطابق ڈی پی او عبداللہ شیخ نے ان کے والد کو مبینہ طور پر کئی بار دھمکیاں دیں جب کہ مقتول کی بیوی کا کہنا ہے کہ ان دھمکیوں کا مقصد زبیر کو میرپور خاص پولیس پر تنقید سے روکنا تھا۔ ان خدشات کی بنا پر زبیر مجاہد نے روزنامہ ’جنگ‘ کے چیف ایڈیٹر محمود شام کو بھی آگاہ کیا تھا۔
’پولیس پر شبہہ جاتا ہے‘
عادل جواد کے بقول زبیر مجاہد کے قتل میں سب سے زیادہ شبہہ پولیس ہی پر جاتا ہے۔ پولیس اور تفتیشی اداروں نے تاحال ان کے قتل کی تحقیقات میں کسی ایک بھی ملزم کی نشاندہی نہیں کی۔ حتیٰ کہ پولیس کی جانب سے قتل کا سراغ لگانے کی کوئی ٹھوس کوشش بھی نظر نہیں آتی۔
ان کا کہنا تھا کہ بالآخر زبیر مجاہد کا کیس سرد خانے کی نذر کردیا کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میرپور خاص پولیس کے بارے میں زبیر کی تنقیدی رپورٹنگ اوراس کے محکمۂ پولیس پر اثرات کی وجہ سے اس قتل کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کا امکان بھی نظر نہیں آتا۔
پولیس کی تحقیقات میں تضادات کا انکشاف
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کیس کی سرکاری فائل کا جائزہ لینے سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ قتل کے واقعے کی تحقیقات میں سنگین غلطیاں اور بے ضابطگیاں کی گئی ہیں۔ پولیس کی تحقیقات میں فرانزک تجزیے کا فقدان، گواہوں سے لیے گئے بیانات اور تحقیقات میں واضح تضاد سامنے آیا ہے۔ ان نکات کی بنا پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ قتل کی ازسرِنو تحقیقات ہونی چاہیئں۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ پولیس نے قتل کے محرکات پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اس کے علاوہ قتل کے محرکات میں زبیر مجاہد کی تحریروں اور مقتول کو ملنے والی دھمکیوں کا پہلو شاملِ تفتیش نہیں کیا گیا۔
اس کے علاوہ پولیس نے نہ صرف مقتول کے ساتھیوں سے بھی رابطہ نہیں کیا بلکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کا بھی کوئی تجزیہ نہیں کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق زبیر مجاہد نے جبری مشقت کا شکار منوبھیل کے بچوں سمیت مقامی زمین دارکے ہاتھوں اغوا اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر بھی رپورٹنگ کی تھی جس پر انہیں بعض افراد کی برہمی کا سامنا تھا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 49 سالہ زبیر مجاہد کی رپورٹنگ پر سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم ) بھی سخت نالاں تھی اور اس کی مقامی قیادت کی جانب سے بھی انہیں دھمکیاں دی گئی تھیں۔
رپورٹ میں شامل سفارشات کے مطابق زبیر مجاہد کے قتل میں مبینہ طور پر ایم کیو ایم کے ملوث ہونے کی بھی تحقیقات کی جائیں۔ کیوں کہ ’اے سیفر ورلڈ فار ٹرتھ‘ کے پراجیکٹ کی تحقیق میں ایسے شواہد بھی ملے ہیں جس کے تحت ایم کیو ایم نے زبیر پر اپنے حق میں زیادہ خبریں شائع کرنے کے لیے دباؤ ڈالا اور ایسا نہ کرنے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیں تھی۔
اس رپورٹ میں یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ زبیر مجاہد قتل کی تحقیقات سندھ ہائی کورٹ کے تحت کرائی جائیں۔ پولیس مقتول کے خاندان کو زبیر کے قاتلوں کی تلاش کی کوششوں کے بارے میں مطلع کرے۔
سفارشات میں کہا گیا ہے کہ عدالت قتل کی تحقیقات کرنے والے پولیس حکام سے مسلسل رپورٹ بھی طلب کرے۔
صحافی زبیر مجاہد کے قتل سے متعلق مرتب کی گئی اس تحقیقاتی رپورٹ کی تیاری کے دوران میرپور خاص پولیس اور ایم کیو ایم سے بھی مؤقف حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تاہم انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
دوسری جانب زبیر مجاہد کے ساتھ کام کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان کی رپورٹنگ کا معیار اور طرز تحریر بہت اچھا تھا۔ وہ اپنی رپورٹنگ میں مختلف زاویوں سے مسلسل فالو اپ بھی کرتے رہتے تھے جس کی وجہ سے ان کے رپورٹ کیے گئے کیسز پریس میں زندہ رہتے تھے۔
’صحافیوں کے قاتلوں کو سزائیں نہیں ملتیں‘
’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ اور صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں گزشتہ 10 برس کے دوران صحافیوں کے قتل میں ملوث ملزمان اکثر سزاؤں سے بچ جاتے ہیں۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی سال 2020 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صحافیوں کے قتل کے ایسے غیر حل شدہ کیسز کی تعداد 15 ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں کے قتل کے واقعات میں انصاف کے حصول کے لیے حکومتی سطح پر مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک خصوصی یونٹ کا قیام عمل میں لایا جائے جو صحافیوں کے غیر حل شدہ قتل کی تحقیقات کرے اور اسے قانونی چارہ جوئی کا بھی اختیار حاصل ہو۔
واضح رہے کہ پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی تحقیق کے مطابق 1992 سے لے کر اب تک کم از کم 61 صحافی مارے جا چکے ہیں۔ پاکستان ورلڈ پریس فریڈم کی فہرست میں اب بھی 145ویں نمبر پر ہے۔