رسائی کے لنکس

پاناما کیس: مشترکہ ٹحقیقاتی ٹیم پیر سے کام شروع کرے گی


سپریم کورٹ نے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا تھا
سپریم کورٹ نے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا تھا

پاکستان کی عدالت عظمیٰ کی طرف سے پاناما دستاویزات کے معاملے سے متعلق مزید تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی ٹیم پیر سے باضابطہ طور پر اپنا کام شروع کر دے گی۔

اس چھ رکنی ٹیم کی سربراہی پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے 'ایف آئی اے' کے ایڈیشنل ڈائریکٹر واجد ضیا کریں گے جبکہ اس میں شامل باقی ارکان کا تعلق اسٹیٹ بینک آف پاکستان، سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن ، قومی احتساب بیورو ’نیب‘ اور فوج کے دو انٹیلی جنس اداروں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس سے ہے۔

یہ ٹیم پاناما لیکس کے معاملے سے متعلق مزید تحقیقات پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں قائم کیے گئے تین رکن بینچ کے تحت کام کرے گی۔

واضح رہےکہ پاناما لیکس سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کے بعد 20 اپریل کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اپنا فیصلہ سنایا تھا، جس میں اس معاملے کی مزید تفتیش کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ’جے آئی ٹی‘ بنانے کا حکم دیا گیا تھا۔

عدالتی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے بیٹوں حسن اور حسین نواز سے بھی کہا گیا تھا کہ وہ تحقیقاتی عمل میں حصہ بنیں۔

اس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو اپنی رپورٹ 60 روز میں سپریم کورٹ میں پیش کرنی ہو گی جب کہ ہر 15 روز کے بعد اس ٹیم کو تحقیقات میں ہونے والی پیش رفت سے بھی عدالت کو آگاہ کرنا ہو گا۔

تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اس معاملے کے تحقیقات کے لیے بہت زیادہ معلومات درکار نہیں ہیں تاہم ان کے حصول کی راہ میں بعض رکاوٹیں حائل ہو سکتی ہیں۔

سینیئر قانون دان اور پاکستان کے سابق وزیر قانون ایس ایم ظفر نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ " چیلنج اتنا بڑا تو نہیں ہے لیکن اس کے راستے میں رکاوٹیں ہیں یہ تو بڑی معمولی معلومات ہیں جو لی جا سکتی ہیں بشرطیکہ پاکستان اور ان ملکوں کے درمیان جہاں سے ہمیں یہ باتیں (معلومات) حاصل کرنی ہیں ان کے درمیان آپس میں معلومات کے تبادلہ کے لیے سمجھوتہ یا کنوینشن ہو۔"

انہوں نے کہا کہ مشترکہ ٹیم بیرون ملک سے معلومات حاصل کرنے کے لیے حکومت یا سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے۔

" یہ رکاوٹیں راستہ میں آ سکتی ہیں اس کے لیے شاید مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو حکومت پاکستان سے درخواست کرنی پڑے گی کہ وہ ان (ملکوں ) کو یہ معلومات فراہم کرنے کا لکھیں کہ وہ یہ معلومات فراہم کرنے کے لیے سمجھوتہ کریں یا اس کے بغیر ہی یہ معلومات فراہم کر دیں۔ ۔۔۔ دوسری صورت میں وہ سپریم کورٹ سے یہ درخواست کریں کہ وہ ان (ملکوں) کی سپریم کورٹ کو لکھیں کہ وہ اس معاملے میں ہمارے ساتھ تعاون کریں۔"

واضح رہے کہ گزشتہ جمعہ کو عدالت عظمیٰ نے مشترکہ ٹیم تشکیل دیتے ہوئے ایک بیان میں کہا تھا کہ ٹیم اگر ضروری سمجھے تو وہ ملکی اور غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کر سکتی ہے۔

حزب مخالف کی جماعتیں یہ مطالبہ کرتی آئی ہیں کہ تحقیقات کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے وزیراعظم استعفیٰ دیں لیکن حکومت ان مطالبات کو مسترد کر چکی ہے۔

XS
SM
MD
LG