امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے وائس آف امریکہ کی گریٹا وین سسٹرین کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ افغانستان کی قوت میں اضافے کے حوالے سے ابھی بہت کچھ کیے جانے کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گرد وہاں دوبارہ قابض نہ ہو پائیں اور نہ ہی امریکہ پر 11 ستمبر جیسا حملہ کر سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ چیز ہمارے ذہنوں میں سب سے نمایاں ہے کہ اس عزم کو یقینی بنایا جائے کہ دہشت گردوں کو حملوں سے روکنے کے لیے ہمارے پاس تمام ضروری وسائل موجود ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا امریکہ طالبان سے مذاكرات کرے گا، قومی سلامتی کے مشیر کا کہنا تھا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ افغان حکومت کو اس میں پہل کرنی چاہیے۔ پھر ہم یہ دیکھیں گے کہ آیا طالبان اور دیگر تمام دھڑے جو افغان حکومت کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں، واقعی ایسے مذاكرات میں دلچسپی رکھتے ہیں جس سے امن کا راستہ ہموار ہو سکے۔
ایران کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں جان بولٹن نے کہا کہ اگر ایران اپنا میزائل پروگرام دوبارہ شروع کر دیتا ہے تو پھر خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے اثرات نے مشرق وسطی میں ہتھیاروں کی دوڑ کی راہ ہموار کی۔ صرف یہ بات نہیں ہے کہ اسرائیل یہ نہیں چاہتا کہ ایران یا دوسرے ملک ترکی، مصر، سعودی عرب، اور گلف کی ریاستیں جوہری ہتھیار بنانے کے قابل ہو جائیں۔ بلکہ میرا خیال ہے کہ ہمارے نزدیک ایک خطرہ یہ ہے کہ اگر ایران جوہری ہتھیار بنا لیتا ہے تو دوسرے ملک بھی جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر آپ یہ معاہدہ ختم نہیں کرتے تو آپ دنیا کے سب سے زیادہ بھڑکتے ہوئے خطے میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کے لیے میدان ہموار کردیں گے۔
قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ کیا ایران جوہری معاہدے پر دوبارہ بات چیت کرنے پر تیار ہو جائے گا جس سے وہ انکار کر چکا ہے، کہا کہ میرا نہیں خیال کہ اس میں تعطل ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ امریکی پابندیوں کا یورپ پر بھی اثر ہو گا۔ میرا خیال ہے کہ ایران کے ساتھ ان کی تجارت میں کمی آئے گی اور پھر ایران کے لیے یہ ایک مشکل انتخاب ہو گا۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ اس صورت حال کو ایران کے لیے حالات کو برداشت کرنا بہت مشکل ہو گا۔
جان بولٹن نے صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی صدارتی مہم کے دوران یہ کہا تھا کہ وہ امریکہ کے قومی مفاد کو اولیت دیں گے ۔ میرا خیال ہے کہ اپنے عہدے کے پہلے سال کے دوران انہوں نے اس سلسلے میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔ ایران، شمالی کوریا اور مشرق وسطی کے معاملات ہمارے سامنے ہیں ۔ انہیں اس سے پہلے درست طور پر حل نہیں کیا گیا تھا۔ صدر ٹرمپ کو جب اقتدار ملا تو ان کے سامنے بہت سے مسائل تھے اور وہ انہیں حل کرنے کے لیے منظم کام کر رہے ہیں۔